انسان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میں مختلف طرح کی پریشانیوں‘ مصائب اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح انسان بہت سی ترغیبات‘ خواہشات اور نفسانی اکساہٹوں کی لپیٹ میں بھی رہتا ہے۔ ان مصائب اور تکالیف کے دوران بے صبری اور نفسانی خواہشات کا اسیر بننے کی وجہ سے انسان کو مختلف طرح کی پشیمانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مصائب اور خواہشات کی شدت کے باوجود صبر کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ صبر کے لغوی معنی ہیں: اپنے نفس کو روکنا‘ یعنی ایسی بات پر ڈٹے رہنا جس کا عقل اور شریعت تقاضا کرتی ہے یا ایسی چیز سے بچنے کے لیے آمادہ و تیار رہنا‘ جس کا تقاضا شریعت اور عقل کرتی ہے۔ مشکلات اور مصائب پر صبر کرنا بھی قابلِ تحسین ہے لیکن خواہشات کو دبانے والا صبر درحقیقت پہلے صبر سے بھی بڑا ہے۔ اگر انسان مشکلات اور خواہشات پر صبرکر لے تو اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات 155 تا 157 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ضرور آزمائیں گے ہم تم کو‘ کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کرکے) نقصان میں مال و جان کے اور آمدنیوں کے‘ اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو۔ وہ (صبر کرنے والے) کہ جب پہنچتی ہے اُنہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں: بیشک ہم اللہ ہی کے (لیے) ہیں اور بیشک ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (دراصل) یہی وہ لوگ ہیں کہ اُن پر ہیں عنایتیں اُن کے رب کی اور رحمتیں بھی‘ اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ التوبہ کی آیات 50 تا 51 میں بھی اسی حقیقت کو کچھ مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اگر پہنچتی ہے تمہیں کوئی بھلائی تو ان (کافروں) کو برا لگتا ہے‘ اور اگر آتی ہے تم پر کوئی مصیبت تو یہ کہتے ہیں (اچھا ہوا) ہم نے ٹھیک کر لیا تھا اپنا معاملہ پہلے ہی اور لوٹ جاتے ہیں وہ خوشیاں مناتے ہوئے۔ کہہ دیجیے ہرگز نہیں پہنچتی ہمیں (کوئی بھلائی یا برائی) مگر وہ جو لکھ دی ہے اللہ نے ہمارے لیے‘ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے‘ اور چاہیے کہ بھروسا کریں اہلِ ایمان اللہ ہی پر‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانی زندگی میں آنے والے جملہ نشیب و فراز اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے آتے ہیں اور ان تکالیف پر صبر کرنا درحقیقت مومن و مسلم کا شیوہ ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے بہت سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے پیروکار کس انداز سے تکالیف پر صبر کرتے رہے۔ اولو العزم انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی دعوت کے دوران بہت سی تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کو مجنوں اور دیوانہ تک کہا اور آپ علیہ السلام کے ساتھ غلط قسم کے رویے اختیار کیے گئے لیکن نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید کی دعوت پر ڈٹے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی زندگی میں بہت سی تکالیف اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بستی والوں نے آپ کی مخالفت کی۔ اسی طرح بادشاہِ وقت نمرود آپ کی ذات کا دشمن بن گیا۔ اس نے آپ کے لیے آگ کا الاؤ بھڑکایا اور اس میں آپ علیہ السلام کے وجود کو پھینکا گیا۔ لیکن آپ نے ان تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت‘ قارون کے سرمائے اور ہامان کے منصب کو خاطر میں لائے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور ہر مشکل کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی بستی والوں کی طرف سے ملنے والی تکالیف کا صبرو استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ نبی کریمﷺ کو بھی دعوتِ دین کے دوران بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپﷺ نے ہر تکلیف کو پوری خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ طائف میں آپﷺ پر بے پناہ ستم ڈھایا گیا لیکن اس موقع پر بھی آپﷺ نے ان مصائب پر صبر کیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے پوچھا: کیا آپ پر کوئی دن جنگِ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپﷺ نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا‘ تب مجھے کچھ ہوش آیا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبریل علیہ السلام اس میں موجود ہیں۔ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپﷺ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے‘ آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی۔ اس نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدﷺ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی‘ آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اللہ واحد کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
قرآنِ مجید نے حضرت ایوب علیہ السلام کی ایک طویل بیماری کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس لمبی بیماری کے دوران آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے صبر کرتے رہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جب آپ نے التجاکی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بیماری کو دور فرما دیا۔ سورۂ انبیاء کی آیات 83 تا 84 میں اس واقعے کا کچھ یوں ذکر کیا گیا ہے: ''اور (یاد کرو قصہ) ایوب کا‘ جب پکارا تھا اس نے اپنے رب کو‘ بے شک مجھے لگ گئی ہے بیماری حالانکہ تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ سو قبول کر لی ہم نے دُعا اُس کی اور دُور کر دی جو تھی اُسے تکلیف‘ اور دیے ہم نے اُسے اس کے اہل و عیال اور اتنے ہی مزید ان کے ساتھ۔ یہ مہربانی تھی ہماری طرف سے اور تاکہ یاددہانی ہو عبادت گزاروں کے لیے‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام اور نبی کریمﷺ کی سیرتِ مطہرہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی مختلف ابتلاؤں پر پوری شدومد سے صبر کرتے رہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت سمیہؓ اور دیگر بہت سے اصحاب کا واقعہ اس حوالے سے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ انہی کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے حضرت امام مالکؒ‘ حضرت احمد بن حنبلؒ اور دیگر بہت سے آئمہ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے راستے میں آنے والے مصائب پر پوری شدومد سے صبر کیا۔ اگر ہم بھی زندگی کے نشیب و فراز کے دوران صبر کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے گا۔ قرآنِ مجید کے مختلف مقامات کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے کی توفیق دے‘ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات پر بھی مکمل طور پر قابو پانے کی توفیق دے‘ آمین!