اسلام آباد‘ پاکستان کا دارالحکومت‘ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ اس کے کناروں پر پھیلی ہوئی پہاڑیاں اور دامن میں پھیلا ہوا سبزہ دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔ اسلام آباد کی سڑکیں کشادہ اور عمارتیں دلکش ہیں۔ اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے لوگ عمارتوں کے طرزِ تعمیر اور اس شہر کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسلام آباد میں مختلف طرح کے سیاسی اور مذہبی پروگرام اور تقاریب وقفے وقفے سے منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں نے اس شہر کو اپنی تحریکوں کا مرکز بنائے رکھا اور پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے بالمقابل ڈی چوک میں دھرنا دیے رکھا اور انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات اور نظامِ انتخاب کو تبدیل کرنے کے مطالبات پیش کیے۔ اسی دھرنے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر منظر عام پر آئی۔ حالیہ ایام میں جماعت اسلامی کے سینئر رہنما سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈی چوک میں ایک دھرنے کا انعقاد کر رکھا ہے۔ مشتاق احمد خان اور ان کی اہلیہ مسئلہ فلسطین سے غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہے کہ حکومت اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تاکہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو روکا جا سکے اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افرادکی بحالی کے لیے کردار ادا کیا جا سکے۔
غزہ میں ہونے والا قتلِ عام بہت بڑا المیہ ہے اور اس المیہ میں اُس وقت شدت پیدا ہو جاتی ہے جب دنیائے اسلام کا اسرائیل کے حوالے سے مداہنت پر مبنی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیائے اسلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مادی‘ عسکری‘ قدرتی اور دیگر بہت سے وسائل عطا کر رکھے ہیں۔ اگر امتِ مسلمہ اس مسئلے کو حل کرانا چاہے تو سیاسی اور سفارتی طریقے سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر پچاس سے زائد مسلم ممالک موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مسئلہ فلسطین کو صحیح طریقے سے آگے نہیں بڑھایا جا رہا۔ فلسطینیوں کا بیت المقدس کے متصل علاقے پر تاریخی‘ مذہبی‘ موروثی اور سیاسی اعتبار سے مکمل حق ہے۔ صہیونی یہود نے 19ویں صدی کے اواخر میں بین الاقوامی سطح پر ایک ہمہ گیر نقل مکانی کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں فلسطین کے حقیقی باشندوں کو بتدریج اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور بعد ازاں عسکریت اور جبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو غلامی کی زندگی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ مسلم ممالک قومی اور وطنی مسائل میں اس حد تک الجھے رہے کہ اس سلگتے ہوئے مسئلے پر صحیح طور پر توجہ نہ دی گئی۔ عرب ممالک کی نااتفاقی کی وجہ سے عرب‘ اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی اور فلسطین کے ہمسایہ عرب ممالک اس جنگ میں شکست سے دوچار ہوئے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک القدس کے علاقے میں رہنے والے مظلوم مسلمان صہیونیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ وہ ان کے ساتھ جس طرح کا مرضی سلوک کریں‘ امتِ مسلمہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہتی ہے اور فلسطینی ہر آنے والے دِن اپنے رِستے ہوئے زخموں کو بیچارگی کی حالت میں برداشت کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
شاہ فیصل مرحوم کو فلسطین کے ساتھ غیر معمولی ہمدردی تھی اور آپ ارضِ مقدس پر یہود کے قبضے پر گہری تشویش محسوس کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے آپ نے عالمِ عرب کو بیدار بھی کیا لیکن ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد عالمِ عرب میں بتدریج اس حوالے سے دلچسپی میں کمی آتی چلی گئی۔ عرب ممالک کے علاوہ فلسطینی جن اقوام سے ہمیشہ تعاون کے طلبگار رہتے ہیں‘ اُن میں پاکستان کا نام سرفہرست ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک‘ سیاسی اعتبار سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ گاہے گاہے ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جن سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بعض عناصر اسرائیل کے ساتھ کشیدگی اور تنازع کو ختم کر کے فلسطین کے قضیے کو ختم کر دینا چاہتے ہیں‘ تاہم دینی جماعتوں کی تحریک کی وجہ سے یہ عناصر غالب نہیں آ پاتے۔ سیاسی اور مذہبی سطح پر کئی مرتبہ اس حوالے سے کشمکش کی صورتحال نظر آئی ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ سے ایک مرتبہ پھر اسرائیل نے فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے احتجاجی پروگرام منعقد ہو رہے ہیں لیکن عملی اعتبار سے تاحال کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے مشتاق احمد خان اور اُن کی اہلیہ اپنے رفقا کے ساتھ ڈی چوک میں مسلسل احتجاج میں مصروف ہیں اور ان کا یک نکاتی مطالبہ ہے کہ پاکستان اس مسئلے پر سنجیدگی دکھاتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم کو بند کرانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔اس دھرنے میں پولیس اور مظاہرین میں کئی مرتبہ ٹکرائو کی کیفیت بھی پیدا ہوئی اور ایک دن ایک افسوسناک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک گاڑی مظاہرین پر چڑھ دوڑی جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور تین شدید زخمی ہو گئے۔ اس ظالمانہ اور سفاکانہ عمل کی وجہ سے پورے ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی اور نوجوانوں اور عوام کی بڑی تعداد اس احتجاج کی طرف مائل ہوئی۔ برادر مشتاق احمد خان نے اس حوالے سے مجھ سے رابطہ کیا تو جمعرات کو میں بھی اس احتجاج کا حصہ بننے کے لیے روانہ ہو گیا اور جمعہ کو اسلام آباد پہنچا۔ جمعہ کے روز بڑی تعداد میں لوگ اس احتجاج میں شریک ہوئے اور نمازِ جمعہ سے قبل مجھے بھی دھرنے کے شرکا سے خطاب کرنے کا موقع میسر آیا۔ جمعہ کی شام کو دوبارہ دھرنے میں حاضری ہوئی‘ ہفتہ کے روز بھی دو مرتبہ شرکا کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا موقع میسر آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ریلی کی قیادت بھی کی۔ اس دوران فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ امتِ مسلمہ ایک جسدِ واحد کی مانند ہے اور امت کے اگر ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو باقی امت کو بھی اس حوالے سے تکلیف اور درد کو محسوس کرنا چاہیے۔ عوام الناس گرمی کی شدت کے باوجود احتجاجی کیمپ میں آتے رہتے ہیں اور احتجاج کرنے والوں میں اپنا نام درج کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت ایک مرتبہ دھرنے کی قیادت کے ساتھ مذاکرات کر چکی ہے لیکن کوئی حوصلہ افزا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ نجانے گرمی کی اس تلخی میں دھرنے کے شرکا کس حد تک اپنے مطالبات پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں بطور امت دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ آج اگر امت کا ایک حصہ مجروح ہے اور ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اللہ نہ کرے‘ کل اگر ہم کسی ابتلا میں مبتلا ہوئے تو امت کے دیگر حصے بھی ہمارے کسی درد کو محسوس نہیں کریں گے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی سفارتی اور سیاسی قوت کا استعمال کرتے ہوئے اہلِ فلسطین کے ساتھ بھرپور طریقے سے اظہارِ یکجہتی کرے تاکہ صہیونیوں کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ امتِ مسلمہ اس ظلم اور بربریت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گی اور جلد یا بدیر فلسطینی اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے آزاد ہوں گے۔
بہت جلد فلسطین کی آزادی کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ میں دنیا بھر سے مسلمانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ بھی جاری وساری ہو گا اور فلسطین کے باشندے پُرامن اور باوقار زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں گے‘ ان شاء اللہ تعالیٰ!