مملکت خداداد پاکستان ایک اسلامی‘ فلاحی اورجمہوری ریاست ہے جس کا قیام کلمہ طیبہ کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ اس ریاست میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے نفاذ کا پختہ ارادہ وعزم کیا گیا تھا۔ اس ملک میں بسنے والوں کیلئے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کا عہد کیا گیا تھا وہیں اقلیتوں کی ساتھ بھی حسن سلوک کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پاکستان نے اپنے اس عزم کو 1973ء میں باقاعدہ آئینی شکل دی کہ پاکستان کا سپریم لاء کتاب وسنت ہو گا اور پاکستان میں کتاب وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی۔ 73ء کے آئین سے بہت پہلے‘ قیام پاکستان کے بعد ہی قراردادِ مقاصد میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کا اعتراف اور اقرار کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں 73ء کے آئین کی روشنی میں بہت سے ایسے قوانین بنائے گئے جن میں نبی کریمﷺ کی حرمت اور ختم نبوت پرغیر متزلزل ایمان و تیقن کا اظہار کیا گیا۔ گو کہ تاحال پاکستان میں بہت سے معاملات کی اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے اسلامی تشخص سے متعلق بہت سی باتیں تسلی بخش بھی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل لگ بھگ ایک ہزار برس تک مسلمانوں نے برصغیر پر حکومت کی تھی۔ محمد بن قاسم کی ہندوستان آمد کے بعد بتدریج برصغیر ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ غزنوی‘ غوری‘ تغلق‘ خاندانِ غلاماں‘ لودھی اور مغلوں نے برصغیر پر تادیر حکومت کی اور ہندوئوں میں کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ دہلی کے حکمرانوں کو چیلنج کر سکیں۔ انگریز نے برصغیر سے رخصت ہوتے وقت جو سیاسی نظام متعارف کرایا تھا‘ اس کی بنیاد عددی اکثریت تھی جس کی وجہ سے ہندوئوں کو برصغیر کی سیاست پر غالب آنے کا موقع مل گیا۔ ہندو ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ چکانا چاہتے تھے لیکن بابصیرت مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی تحریک چلاکر ہندوئوں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ پاکستان کا قیام اس اعتبار سے مسلمانوں کی ایک کامیابی تھی کہ مسلمان انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوئوں کی جارحیت سے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہندوئوں نے تقسیم ہند کے وقت بہت سے معاملات میں دھونس اور دبائو سے کام لیا لیکن اس کے باوجود ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ‘ علامہ اقبالؒ‘ مولانا ظفرعلی خانؒ‘ مولانا محمد علی جوہرؒ اور اور علمائے اسلام کی مسلسل کاوشوں اور اہل اسلام کی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھر آیا۔
قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف نفرت اور تعصب کے پھیلائو کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس نفرت کا اظہار مختلف ادوار میں ہو چکا۔ 1965ء میں بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا لیکن پاکستانی قوم اور افواج پاکستان نے شانہ بشانہ دفاعِ وطن کی جنگ مضبوطی سے لڑی اور ہندو بنیے کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ 1965ء میں جس انداز سے وطن کا دفاع کیا گیا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستان کے چپے چپے کے دفاع کیلئے لوگ اپنا تن من دھن نچھاور کرنے پر آمادہ وتیار ہو گئے تھے۔ قومی اور لسانی تعصبات کی بڑھوتری کی وجہ سے 1971ء میں ہم بھارت کی جارحیت کا صحیح طریقے سے مقابلہ نہ کر سکے۔ بعد ازاں پاکستان نے اپنے دفاعی معاملات پر خصوصی توجہ دی اور افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں نے بھی پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیربنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیرخانؒ کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ 1998ء میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 13 مئی کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے گا۔ ہمارے دفاعی اداروں اور سائنسدانوں کے اشتراکِ عمل کے سبب 28 مئی 1998ء کو بھارتی دھماکوں کا بھرپور طریقے سے جواب دیا گیا اور چاغی میں ہونے والے دھماکوں نے نہ صرف بھارت کے جارحانہ قدموں کو روک دیا بلکہ اس کے دل پر پاکستان کا رعب اور دبدبہ بھی قائم ہو گیا۔ فروری 2019ء میں بھی بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی خود مختاری پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان میں داخل ہونے والا ایک بھارتی پائلٹ گرفتار ہو گیا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کو ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
چند ہفتے قبل پہلگام میں دہشت گردی کا ایک واقعہ رونما ہوا تو اس کے فوراً بعد بھارت نے بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے اس کے تانے بانے پاکستان کے ساتھ جوڑے اور پاکستان کو راست اقدام کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ بھارت کی دھمکیاں اُس وقت حقیقی جارحیت میں تبدیل ہو گئیں جب اس نے مرید کے اور بہاولپور سمیت ملک میں متعدد مقامات پر باقاعدہ حملے کیے اور مساجد کو نشانہ بنایا جس میں بے گناہ لوگ شہید ہو گئے۔ افواجِ پاکستان نے بے گناہ شہدا کے ساتھ بھرپور انداز سے اظہارِ یکجہتی کیا اور ان کے جنازوں میں شریک ہو کر بھارت کو یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے دفاع پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے فقط ان حملوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان حملوں کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں فضائی اور ڈرون حملوں کی بھی کوشش کی۔ آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں اور لاہور‘ بہاولپور‘ راولپنڈی سمیت متعدد شہروں پر ڈرون حملے کیے گئے۔ پاکستان نے جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ڈرونز مار گرائے اور جہازوں کو بھی زمین بوس کیا لیکن بھارت جارحیت سے باز آنے کے بجائے مسلسل پیش قدمی کرتا رہا۔ نتیجتاً پاکستان نے عوام کے مطالبے پر آپریشن ''بنیانٌ مرصوص‘‘ کا آغاز کیا۔ اس آپریشن میں بھارت کے درجنوں مقامات کو ٹارگٹ کیا گیا اور اس کے دفاعی اثاثوں پر کامیاب حملے کیے گئے جس سے بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور فوراً سے پہلے صلح کی کوششیں شروع کر دیں۔ صلح کیلئے اپنے سفارتی مشن کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے بین الاقوامی طاقتوں تک رسائی حاصل کی اور امریکہ کو بھی پکارا کہ اس کی مدد کی جائے۔ چنانچہ امریکی قیادت نے اس موقع پر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کی جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن‘ رواداری اور علاقائی سالمیت کی بات کی ہے۔ چنانچہ پاکستان نے اس پیشکش کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس جارحیت کے نتیجے میں بھارت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور دنیا پر یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارت خطے کی سالمیت اور امن کا دشمن ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان سے نفرت کرتا ہے بلکہ پاکستان کی اساس نظریہ پاکستان اور کلمہ طیبہ کے بارے میں بھی شدید متعصبانہ اور معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔ بھارت کے عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ اپنے جنگی عزائم کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ سب پر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کی افواج اور دفاعی ادارے ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جارحیت کی صورت میں دشمن کے دانت بھی کھٹے کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے اور اس ہنگامی کیفیت کے دوران جس انداز میں پاکستانی قوم نے پاک فوج اور دفاعی اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے‘ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آنے والے ایام میں پاکستان ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ بطریق احسن کر سکتا ہے‘ ان شاء اللہ۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مملکت خداداد کی حفاظت فرمائے اور اس کو اندرونی وبیرونی دشمنوں سے محفوظ فرمائے‘ آمین!