اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف رشتوں‘ خصوصاً والدین کے حقوق کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیات: 23تا 24 میں والدین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا‘ نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسے انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ میں والدین کے حقوق کے جملہ پہلوئوں کا بڑے احسن طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے۔ جس طرح قرآن پاک میں والدین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اسی طرح کتاب وسنت میں اولاد کے بھی بہت سے حقوق کو بیان کیا گیا ہے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ طریقۂ کار تھا کہ وہ اولاد کی ولادت سے قبل ہی اس کے نیک ہونے کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الصافات کی آیت 100 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کہا ''اے میرے رب! تو مجھے (بیٹا) عطا کر جو صالحین میں سے ہو‘‘۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے نیک اولاد کی دعا مانگی تھی۔ چنانچہ اہلِ ایمان کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے نیک اولاد کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ اولاد کی نعمت سے نواز دیں تو اس کا اچھا نام رکھنا چاہیے اور اس کا عقیقہ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچے کا عقیقہ ساتویں دن کرنا چاہیے۔ اگر ساتویں دن نہ کیا جا سکے تو بعد ازاں جب بھی موقع ملے‘ اس کی قضا کرنی چاہیے۔ بچے کے حقوق میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی غذائی ضروریات کو آغازِ طفولیت ہی سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور جب وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل ہو جائے تو اس کو اچھے الفاظ سکھانے چاہئیں۔ بچے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم اور تربیت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اور اس کو اچھی باتوں کی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں تین ایسی شخصیات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے بطور باپ بہت مثالی زندگی گزاری؛ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت لقمان۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو خیر کی وصیت کی اور اپنی اولاد کے لیے مسلسل دعاگو بھی رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان دعائوں کا بھی ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے کی تھیں۔ چنانچہ سورۂ ابراہیم کی آیات 35 تا 41 میں ارشاد ہوا ''(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری فرمانبرداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ اے ہمارے پروردگار! تُو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین وآسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعائوں کا سننے والا ہے۔ اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی‘ اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے‘‘۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعائوں کا ذکر کیا وہیں حضرت لقمان کی نصیحتوں کا ذکربھی کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیات: 13 تا 19 میں حضرت لقمان کی خوبصورت نصیحتوں کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں ''اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے کہا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا‘ بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے‘ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر‘ (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو‘ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے‘ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔ پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا‘ اللہ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تُو نماز قائم رکھنا‘ اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا‘ برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آ جائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل‘ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر‘ اور اپنی آواز پست کر‘ یقینا آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے‘‘۔
حضرت لقمان کے علاوہ سیدنا یعقوب علیہ السلام بھی اپنی اولاد کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی وصیت کا ذکر سورۃ البقرہ کی آیت: 133 میں کچھ یوں کیا ہے ''کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے‘ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبائو اجداد ابرہیم اور اسماعیل اور اسحاق (علیہم السلام) کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے‘‘۔
اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اچھے کاموں میں شریک کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے موقع پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ساتھ شریک کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے لیے اچھے رشتے کا اہتمام کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے احادیث مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرزِ عمل کا ذکر موجود ہے کہ جو انہوں نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے اختیار کیا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہو کے صابر وشاکر نہ ہونے کی صورت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس سے علیحدہ ہونے کا حکم دیا اور اس کے بعد ایک صابر اور شاکر خاتون کے آ جانے پر اس سے وابستہ رہنے کی تلقین فرمائی۔ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سب والدین کو اپنی اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے‘ آمین!