"AIZ" (space) message & send to 7575

دفاعِ پاکستان ریلی

کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام میں جہاں اس کی معیشت کلیدی کردار ادا کرتی ہے وہیں اس کی دفاعی استعداد کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ جو اقوام اپنے اوطان کا دفاع کرنا جانتی ہیں وہ ہمیشہ دنیا میں عزت اور وقارکے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور جو اقوام اپنے دفاع پر سمجھوتا کر لیتی ہیں یا اس پر توجہ نہیں دیتیں‘ دنیا میں ان کا کوئی وقار و مرتبہ نہیں رہتا۔ اسلامی سرحدوں کا دفاع اور مملکت کے مخالفوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت بہت بڑی نیکی ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی غفلت بہت بڑا گناہ ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کو دفاعی اعتبار سے بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان تمام چیلنجز کا پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم نے ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کشمیر کے تنازع پر پاک بھارت ٹکرائو ہوا لیکن پاکستان نے بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 1965ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے دفاع کوچیلنجز لاحق ہوئے تو پوری پاکستانی قوم نے سیالکوٹ اور لاہور کی سرحدوں پر اپنے اتحاد اور اتفاق سے افواجِ پاکستان کے ہمراہ بھارتی پیش قدمی کو روک دیا۔ 1971ء میں لسانی اور علاقائی تقسیم کی وجہ سے ہندو اپنے مذموم منصوبوں اور ناپاک عزائم کو پورا کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا لیکن بعد ازاں پاکستان نے اپنے دفاع کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور جدوجہد کی۔ پاکستان کی افواج اور سائنسدانوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے جوہری صلاحیت بھی حاصل کی۔ مئی 1998ء میں بھارت نے پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے جب پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے بھارت کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے جوابی طور پر چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا۔ 2019ء میں ایک مرتبہ پھر بھارت نے پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی افواج نے اس کوشش کو بُری طرح ناکام بنا دیا۔
مئی 2025ء میں ایک مرتبہ پھر بھارت نے پاکستان میں دراندازی کی اور نہ صرف یہ کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں در اندازی کی بلکہ نظریاتی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے مریدکے ‘ بہاولپور اور آزاد کشمیر میں مساجد اور دینی مراکز پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بہت سے نہتے شہری اور بے گناہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ افواج پاکستان کے سینئر افسران نے اس موقع پر قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے خود ان جنازوں میں شرکت کی اور بھارت کے ظلم کا جواب دینے کے لیے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔ بھارت نے اپنی کارروائی کو 'آپریشن سندور‘ کا نام دیا جبکہ افواج پاکستان نے ''بنیانٌ مّرصوص‘‘ کے نام سے بھارت کے خلاف آپریشن لانچ کیا۔ بھارت کے جنگی جہازوں اور ڈرونز کو گرانے کے ساتھ ساتھ پاکستان نے اس کے دفاعی اور عسکری اثاثوں پر بھی حملے کیا۔ بھارت ان حملوں کی وجہ سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور پاکستان کا دفاع ایک بار پھر ناقابلِ تسخیر قرار پایا۔ اس معاملے میں جہاں افواجِ پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کیا وہیں ملک کی تمام جماعتوں اور طبقات نے بھی حالات کا ادراک کرتے ہوئے دفاعِ وطن کے لیے اپنی بیش قیمت خدمات پیش کیں۔ ملک کے طول وعرض میں جہاں اس دوران مسلسل پروگراموں‘ خطابات اور بیانات کے ذریعے افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا وہیں اس آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد بھی مختلف مقامات پر ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے قرآن وسنہ موومنٹ پنجاب نے 18 مئی بروز اتوار ظہر کی نماز کے بعد خیابانِ جناح روڈ پر ''دفاعِ پاکستان ریلی‘‘ کا انعقاد کیا جو مرکز بیت العتیق سے شروع ہو کر چھتری چوک پر ختم ہوئی جہاں قرآن و سنہ موومنٹ کے رہنمائوں نے ریلی کے شرکا سے خطاب کیا۔ ان میں ڈاکٹر شفیق الرحمان زاہد‘ قیم الٰہی ظہیر‘ قاری احمد قمر‘ مولانا کوثر زمان اور ڈاکٹر صلاح الدین شامل تھے۔ ان تمام مقررین نے اپنے اپنے خطابات میں اس بات کا اعلان کیا کہ ہم دفاعِ پاکستان کے لیے پاکستان کے قومی اداروں اور افواجِ پاکستان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ریلی سے صدارتی خطاب کے لیے مجھے دعوت دی گئی۔ میں نے جن گزارشات کو ریلی کے شرکا کے سامنے پیش کیا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ اپنے قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں: اقوام کی زندگی میں مختلف ادوار آتے ہیں۔ امن کے دور کے ساتھ ساتھ تمام قومیں جنگی حالات سے بھی گزرتی ہیں۔ ان جنگی حالات میں جہاں دفاعی اداروں اور افواج پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہیں قوم پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے داخلی اختلافات کو فراموش کر کے وطن کی سرحدوں کے دفاع کے لیے اکٹھی ہو جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے حبیب محمد کریمﷺ نے مسلمانوں کو اسلامی سرحدوں کے دفاع اور دشمن کے ساتھ ٹکرائو کی صورت میں ثابت قدمی کا درس دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانفال کی آیات: 45 تا 46 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جائو تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو‘ آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر وسہارا رکھو‘ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ کا مفہوم یہی ہے کہ انسان کو اسلام دشمنوں کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ اللہ سے رجوع کرنا چاہیے اور داخلی تنازعات سے بچنا چاہیے۔ تنازعات سے بچ کر ہی کوئی قوم دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کا پیغام‘ بہادری اور جرأت کا پیغام ہے۔ اسلام کی تاریخ میں بہت سے معرکے ہوئے جن میں اللہ کی خصوصی نصرت سے اعدائے دین کو ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدر‘ خندق اور تبوک کے معرکوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ اسلام کو دشمنوں کے مقابلے پر فتحیاب کیا۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد قیصر وکسریٰ کی طاقتیں بھی مسلمانوں کے مقابلے میں ناکام رہیں۔ محمد بن قاسم برصغیر میں اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہوئے تو ان کے مقابلے پر راجا داہر کی افواج بالکل بے بس اور کمزور ثابت ہوئیں۔ محمود غزنوی‘ غوری‘ تغلق‘ غلاماں اور مغلوں نے طویل عرصے تک برصغیر پر حکومت کی اور ہندو کسی بھی طور پر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والی جنگوں میں بھی بھارت کو ہمیشہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی سازش تیار کرتا رہتا ہے؛ البتہ ہر سازش کے بعد اس کو منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ پاکستانی قوم اور فوج کے درمیان اعتماد کا جو غیر متزلزل رشتہ ہے‘ اس کی وجہ سے دشمن کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ اس جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے وقار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو ایک جرأت مند‘ بہادر اور باوقار ریاست کے طور پر ایک نئی شناخت میسر آئی ہے۔ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی قوم اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے پوری طرح آ مادہ وتیار ہے اور پاک فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ جنگی حالات کے دوران مذہبی‘ لسانی اور سیاسی تقسیم کو دفاعِ وطن کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
ریلی کے شرکا نے بڑی توجہ کے ساتھ مقررین کی تقاریر کو سنا اور ریلی کے بعد ایک نئے عزم اور جذبے کو لیے روانہ ہوئے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ایام میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کا دفاع پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور مستحکم ثابت ہو گا‘ ان شاء اللہ!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں