"AIZ" (space) message & send to 7575

غموں سے نجات

دنیا کا ہر شخص غم سے نجات چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں۔ انسانوں کی زندگی نشیب وفراز سے عبارت ہے۔ انسان زندگی میں دکھوں‘ تکالیف اور مشکلات سے گزرتا رہتا ہے جن کے متعدد اسباب کتاب وسنت میں بیان کیے گئے ہیں۔ مصائب کے اسباب پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مصائب بنیادی طور پہ تین وجوہات کی بنیاد پہ آتے ہیں:
1۔ نیکوکاروں کیلئے آزمائش: جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان کی زندگی میں آنے والی ابتلائیں درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے بہت سے مقرب بندے مختلف ادوار میں مختلف طرح کی تکالیف اور مشکلات سے گزرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ اہلِ ایمان کو مختلف طریقوں سے آزمائے گا؛چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت: 155 میں ارشاد ہوا ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے‘ دشمن کے ڈر سے‘ بھوک پیاس سے‘ مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے‘‘۔ یہاں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو کبھی خوف‘ کبھی بھوک‘ کبھی مالی و جانی نقصان اور پھلوں (فصلوں) کے نقصانات کے ذریعے آزماتے ہیں۔ اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العنکبوت کی آیات: 2 تا 3 میں کچھ یوں ارشاد فرمایا ''کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دیں گے؟ ان سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے خوب جانچا‘ یقینا اللہ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں‘‘۔
2۔ گنہگاروں کیلئے تنبیہ: یہ مصائب جس طرح نیکوکاروں کیلئے اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتے ہیں ویسے ہی گنہگاروں کے بُرے اعمال کا نتیجہ اور اللہ کی طرف سے اُن کیلئے تنبیہ بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ انسان کی زندگی میں آنے والے جملہ مصائب کا تعلق اس کے اپنے اعمال کے ساتھ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت: 30 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘۔ جب کوئی قوم اجتماعی حیثیت سے گناہوں اور نافرمانیوں کا ارتکاب کرتی ہے تو اس کے نتائج بڑے ہولناک نکلتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الروم کی آیت: 41 میں خشکیوں اور تریوں میں فساد کی وجہ انسانوں کے اعمال کی سیاہی کو قرار دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوا ''خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے‘ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں‘‘۔ بہت سے لوگ ان تنبیہات سے سبق حاصل کرتے اور اپنا شمار نیکوکاروں میں کروا لیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس بہت سے لوگ ان تنبیہات کو نظر انداز کر کے سرکشوں اور باغیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
3۔ مجرموں کیلئے عذاب کا کوڑا: مصائب اور مشکلات جہاں گنہگاروں کیلئے اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہیں وہیں مجرموں کیلئے اللہ کی طرف سے عذاب کا کوڑا بھی ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نافرمان اقوام پر آنے والے عذابوں کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آلِ فرعون پر آنے والے مختلف طرح کے عذابوں کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیات: 131 تا 133میں ارشاد فرماتے ہیں ''سو جب ان پر خوشحالی آ جاتی تو وہ کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہیے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو اسے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے‘ یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اور یوں کہتے: کیسی ہی بات ہمارے سامنے لائو کہ ان کے ذریعے سے ہم پر جادو چلائو تب بھی ہم تمہاری بات ہرگز نہ مانیں گے۔ پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون‘ کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے‘ سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی کھلے نافرمان‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العنکبوت میں بھی سابقہ قوموں پر آنے والے عذاب کے خلاصے کو بڑے بہترین انداز میں بیان فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ العنکبوت کی آیات: 36 تا 40 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا‘ انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو‘ قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا‘ آخر انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہو کر رہ گئے۔ اور ہم نے قومِ عاد اور قومِ ثمود کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں ان کی بداعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہِ (راست) سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے۔ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی‘ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے۔ پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا‘ ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا‘ اللہ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘‘۔
ان اسباب کو سمجھنے کے بعد اُن افعال اور اعمال کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان مصائب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے آزمائشوں پر ہمیشہ صبر کرتے اور اللہ کی رحمتوں کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات: 156 تا 157 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ (صبر کرنے والے) کہ انہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
گنہگاروں کو اس حوالے سے ایسے اعمال کرنے چاہئیں جن کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ غموں کو دور فرما دے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ مصائب کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورۃ الطلاق کی آیت: 2 میں ارشاد ہوا ''اورجو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کیلئے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔ اسی طرح توبہ واستغفار کرنے سے بھی انسان کے مصائب دور ہوتے اور اللہ کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ سورۂ نوح کی آیات: 10 تا 12 میں ارشاد ہوا ''اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشوائو (اور معافی مانگو) وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔ اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا‘‘۔ اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ سے بھی انسان کے مصائب اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔ جب مجرموں پہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برستا ہے تو پھر ان کو کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اس میں بعد میں آنے والوں کیلئے سامانِ عبرت ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں‘ اپنے رب کو راضی کریں اور گناہوں سے محفوظ ہو جائیں۔
اگر انسان مذکورہ بالا تدابیر کو اختیار کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے غموں سے نجات پاکر وہ ایک خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کے غموں کو دور فرما دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں