"AIZ" (space) message & send to 7575

قربانی کا مقصد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی بندگی کیلئے تخلیق کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ الذاریات کی آیت: 56 میں واضح فرما دیا کہ ''میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید اور نبی کریمﷺ نے اپنے فرامین مبارک میں عبادت کے بہت سے طریقے بتلائے ہیں جن میں سے یہ بھی ہے کہ جب جانور کو ذبح کیا جائے تو اس پر چھری چلاتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لیا جائے۔ عام طور پر جانورکو غذائی ضروریات پورا کرنے کیلئے اللہ ہی کے نام پر ذبح کیا جاتا ہے لیکن قربانی مخصوص ایام میں کی جاتی ہے جس کا مقصد تقویٰ کاحصول ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحج کی آیات: 34 تا 35 میں ارشاد فرماتے ہیں:
''اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ سمجھ لو کہ تم سب کا معبودِ برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جائو‘ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں‘ انہیں جومصیبت پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں‘ نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں‘‘۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا آپس میں اختلاف قربانی کی قبولیت ہی کے حوالے سے ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ المائدہ کی آیات: 27 تا 31 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''آدم کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو‘ ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا‘ ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی‘ تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا‘ اس نے کہا: اللہ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ گو تُو میرے قتل کیلئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھائوں گا‘ میں تو اللہ پروردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اُسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا‘ جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے۔ وہ کہنے لگا: ہائے افسوس! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی نعش کو دفنا دیتا؟ پھر تُو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہو گیا‘‘۔
قربانی کی اس تاریخ میں ایک نیا اور غیر معمولی رنگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی نے بھر دیا‘ جب انہیں خواب میں دکھلایا گیا کہ وہ اپنے بڑھاپے میں ملنے والے اکلوتے عزیز بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ الصافات کی آیات: 99 تا 107میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں‘ وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیم) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے‘ اِن شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا‘‘۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان جب جانور ذبح کرتا ہے تو اس کا خون اور گوشت اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اس کے دل کا تقویٰ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کو پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحج کی آیات: 37 تا 38 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی رہنمائی کے شکریے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو‘ اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔ سن رکھو! یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ ہٹا دیتا ہے۔ کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ کو ہرگز پسند نہیں‘‘۔
اگر ہم قربانی اس انداز سے کریں کہ ہمارا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کاحصول ہو تو یقینا یہ قربانی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو گی اور اگر انسان فقط دکھلاوے اور ریاکاری کیلئے کام کرے تو ایسی قربانی بے سود رہے گی۔ اسی حوالے سے صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ ناتل (رئیس اہلِ شام) نے حضرت ابوہریرہؓ سے کہا: شیخ! مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو۔ کہا: ہاں‘ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا‘ وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا: تُو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: تُو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے‘ اور یہی کہا گیا‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا‘ پڑھایا اور قرآن کی قرأت کی‘ اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا‘ وہ پہچان لے گا۔ وہ فرمائے گا: تُو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قرأت کی۔ (اللہ) فرمائے گا: تُو نے جھوٹ بولا‘ تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے‘ وہ کہا گیا‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا‘ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتیٰ کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا‘ اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا‘ وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے‘ تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے‘ وہ سخی ہے‘ ایسا ہی کہا گیا‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ریاکاری سے محفوظ رکھے اور صحیح طریقے سے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں