پابندی پر نفسیاتی ردِعمل

پابندی لگا دیں گے؟ تو کر دیکھیں۔ اب بڑی خبر بنے گی‘ شہرت کی چمک مزید نکھرے گی‘ کشش کی طاقت بڑھے گی‘ عوام مزید رغبت محسوس کریں گے کیونکہ انسانی نفسیات انہی خطوط پر مبنی ہے۔ امکانات کو محدود کرنے کی کوشش انسانوں کی دلچسپی بلکہ تڑپ کا سامان پیدا کرتی ہے۔ انسان کو آزادی کی خواہش دے کر دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ انسان سوچ سکتے ہیں‘ تجزیہ کر سکتے ہیں‘ آزادی کے لیے متبادل تلاش کر سکتے ہیں۔ اور یہ چیز انہیں دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اُن میں سے سب سے محترم آزادی کی چوائس ہے۔ بچے کا زمین پر رینگنا اور پھر چلنا ایک حرفِ انکار کا ردِعمل ہوتا ہے۔ انکار میں اضافہ ردِعمل کی شدت بڑھاتا جاتا ہے۔ اس طرح کئی حوالوں سے معکوسی نفسیات کو استعمال کرتے ہوئے منع کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔
معکوسی نفسیات اس تصور پر مبنی ہے کہ مطلوبہ رویے کے لیے اس کے مخالف رویے کی وکالت مطلوبہ نتائج دے سکتی ہے۔ اس کے لیے اس شخص کو اُس کام کا مخالف کام کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے جو اس سے کرانا مقصود ہوتا ہے۔ نفسیات کے میدان میں اسے ''متناقضہ مداخلت‘‘ کہتے ہیں۔ ایک باپ اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کے لیے سالگرہ کا تحفہ بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہ چیلنج بیٹے کو تحفہ خریدنے کے لیے اکسائے گا۔ عام طور پر مصنوعات کی فروخت کے لیے بھی اسی انسانی جبلت کو جان بوجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی تشہیر پر پابندی لگا دیں اور پھر اس کے نتائج دیکھیں۔ کسی ایک ملک میں کسی کتاب پر پابندی لگا دیں اور دیکھیں کہ باقی دنیا میں یہ کیسے ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ خطرناک اور مضر صحت چیزوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ منشیات‘ فحش فلموں وغیرہ پر سخت پابندی لگائی جاتی ہے لیکن پھر اس کے ساتھ بھرپور آگاہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگ ان کے تباہ کن اثرات کو سمجھ لیں۔
معکوسی نفسیات کے مطالعے کے لیے سیاست کا میدان بہت اہم ہے۔ اس وقت پاکستان میں یہی مثال دہرائی جارہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت‘ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو حال ہی میں قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے چند ووٹوں کے فرق سے حکومت سے نکال دیا گیا۔ جمہوری رہنما آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس پر عوامی ردِعمل برائے نام ہوتا ہے۔ توقع یہی کی جارہی تھی کہ عمران خان کی رخصتی بھی ایک معمول کا معاملہ ہوگی۔ کچھ شور ہوگا لیکن پھر لمحاتی اشتعال جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ لیکن گزشتہ چار ماہ سے جو کچھ ہوا‘ اس نے ہر کسی کو چونکا دیا ہے۔ یہ ناقابلِ یقین دکھائی دیتا ہے۔ انتہائی بدترین حالات میں بھی عوام اتنی بڑی تعداد میں باہر نکل آتے ہیں کہ حکومت پریشان ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ کوئی تدبیر بھی سمجھ نہیں آرہی۔ کیا چارہ کیا جائے؟ حکومت نے نااہلی کا بیانیہ بنانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر دیکھی۔ ناقص گورننس اور اب دہشت گردی کے الزامات لگا لیے۔ لیکن ہر چیز کا الٹا ردِعمل ہوا۔ انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست دینے کی کوشش کی۔ اس کے ردِعمل میں پنجاب ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اب وہ عمران خان ‘ان کی تقاریر اورسیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی کوشش میں ہے۔ پابندی لگانے کی یہ حکمت عملی چار عوامل کی وجہ سے معکوسی نفسیات کا اثر پیدا رکھتی ہے:
1۔ جبری طور پر مسلط کردہ امپورٹڈ حکومت: کسی مقبوضہ علاقے میں رہنے سے زیادہ شاید ہی کوئی اور چیز جبر کا احساس پیدا کرتی ہو۔ ہمارے ہمسائے‘ افغانستان اور کشمیر نے آزادی کے لیے عشروں تک امریکیوں اور بھارتیوں سے جنگیں لڑی ہیں۔ جب عمران خان نے اپریل میں کی گئی ایک تقریر میں امریکی مراسلے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا صرف یہ کہا: ''امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ تو یہ ان کی تحریک کا نعرہ بن گیا۔ پاکستانی عوام نے جارحانہ رویہ اپنا لیاکہ کس طرح ایک بیرونی ملک فیصلہ کر سکتا ہے کہ پاکستان پر کس کی حکومت ہوگی؟ ''نامنظور‘‘ کا نفسیاتی اثر بہت توانا ہے۔ اس سے مزاحمت کی جھلک ملتی ہے۔ یہ عوامی ردِعمل کو ابھارتا ہے۔ حرفِ انکار سے حب الوطنی اور بنیادی انسانی اقدار جاگ اٹھتی ہیں۔ 'غلامی نامنظور‘ کا نعرہ 'ہمیں آزاد پاکستا ن چاہیے‘ سے کہیں زیادہ شدتِ جذبات کو سموئے ہوئے ہے۔ 'زنجیریں توڑ دینے‘ کی قدیم علامت اب سوشل میڈیا پر اچھائی کی برائی کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ردِعمل تمام طبقوں‘ دھڑوں‘ عمروں اور گروہوں سے بالاتر‘ عالمگیر جہت اختیار کر چکا ہے۔
2۔ اطاعت گزاروں کو قبول کرنے سے انکار: 'نامنظور‘ کی للکار روایتی طاقتوں کو چیلنج کرتی ہے۔بدقسمتی سے موجودہ حکومت ابلاغ کے نئے قوانین سے لاعلم ہے۔ اُس نے نہ صرف ایک نجی چینل‘ ایک اینکر اور خان صاحب کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی بلکہ سوشل میڈیا کے ساتھ بھی اُلجھ بیٹھی۔ اس نے معکوسی نفسیات کے جلتے ہوئے جذبات پر مزید تیل چھڑک دیا۔ عوام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش مہنگی پڑگئی۔ یوٹیوب کے انقلاب نے پہلے ہی حکومت کی ناظرین تک پہنچنے کی کوششوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ اب تو یہ عوام کا میچ بن چکا ہے۔ ٹک ٹاک تحریک انصاف کے جلسوں کی جھلکیاں اس طرح دکھا رہی ہے کہ تمام الیکٹرانک چینل مل کر بھی نہیں دکھا سکتے۔ جو کبھی محض دعوے تھے‘ اب لوگوں کے سامنے ٹھوس حقائق کی شکل میں موجود ہیں۔ وزیراعظم کی تقاریر کو محض چند ہزار افراد نے دیکھا۔ دوسری طرف عمران خان کی سوشل میڈیا پر تقاریر کو کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔ حکومت روایتی میڈیا کو دبانے کی جتنی کوشش کرتی ہے‘ ناظرین ریکارڈ تعداد میں عمران خان کی تقاریر سن کر اس کا سخت ردِعمل دیتے ہیں۔
3۔ معمول کی انتخابی دھاندلی کے خلاف ردِعمل: ایک اور نفسیات جس نے معجزانہ کام دکھایا‘ وہ عوام کو باور کرانا تھا کہ مخالفین الیکشن میں انجینئرنگ دکھانے پر پُر اعتماد ہیں۔ لیکن اس نے ہر ووٹر کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنے ڈالے ہوئے ووٹ کی حفاظت کے لیے خود سر نظام اور ماضی کے تجربے کے سامنے ڈٹ جائے۔ اس عزیمت نے الیکشن کو بالکل یک طرفہ مقابلہ بنا دیا۔ جس طرح سے ہر ووٹر نے اپنا نام ووٹنگ فہرستوں سے نکالے جانے کے خلاف لڑائی لڑی‘ پولنگ بوتھ میں آزمائے جانے والے مبینہ ہتھکنڈوں کو چیلنج کیا‘ ووٹوں کی گنتی کے وقت نتائج میں مبینہ گڑبڑ روکنے کی کوشش کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا‘ اس نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کے قدموں تلے سے زمین نکال دی۔ اب وہ اتنی سراسیمگی کا شکار ہو چکے ہیں کہ الیکشن کا نام لینے سے بھی بدکتے ہیں۔ عام انتخابات تو ایک طرف‘ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی مسلسل التوامیں ڈال رہے ہیں۔ شاید یہ کئی عشروں میں ہونے والا سب سے بڑا اَپ سیٹ ہے۔1970 ء کے بعد سے کسی نے طاقتوروں کی حمایت کے بغیر انتخابات نہیں جیتے تھے۔
4۔ عوام کی عدالت: مندرجہ بالا فتوحات نے عوام کا حوصلہ دوچند کردیا۔ اگرچہ عوامی جذبات قانون کو براہِ راست متاثر نہیں کرتے لیکن عوامی دباؤ کو محسوس تو کیا جاتا ہے۔ جب عدم اعتماد کے وقت نصف شب قانون حرکت میں آیا تو عوام اس قدر مشتعل ہوئے کہ پھر اپنی غیرجانبداری ثابت کرنے کے لیے پنجاب میں بھی نصف شب کو قانون کو حرکت میں آنا پڑا۔ اسی طرح جب خبر پھیلی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو دہشت گردی کے بے بنیاد کیس میں رات کے پیچھے پہر گرفتار کیا جا سکتا ہے تو ان کے ہزاروں حامی بنی گالا کے گرد جمع ہوگئے تاکہ اس ناروا کوشش کو روک سکیں۔
حکومت جتنا زیادہ طاقت کا استعمال کرے گی‘ عوامی نفسیات اتنا ہی شدید ردِ عمل دکھائے گی۔ مسلسل مزاحمت حکومت کو شکست خوردہ اور عوام کو فاتح ثابت کرتی جائے گی۔ عوام کی ان فتوحات نے پہلے ہی طاقت کے بڑے بڑے قلعوں کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔ اس نے عوام کو خود اعتمادی بخشی ہے۔ عوامی طاقت نے پاکستانیوں کے اس تاثر کو بھی بدل ڈالا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سیاست سے لاتعلق رہتے ہیں۔ یہ تصور بھی دھواں بن کر تحلیل ہوگیا ہے کہ کسی کے کے بیانیے کو نہ چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ تبدیل۔ اب تو غیرملکی میڈیا بھی پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کو حیرت سے دیکھ رہا ہے۔ ''فارن پالیسی‘‘ میگزین میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون ''عمران خان کا انقلاب‘‘ میں مضمون نویس لکھتے ہیں کہ ''عمران خان نے پاکستانی سیاست میں بہت سے ممنوعات کو توڑ ڈالا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے ممکنہ طور پر ایک ڈیجیٹل ڈیموکریٹک انقلاب کی داغ بیل ڈال دی ہے‘‘۔ اب اس کے جو بھی نتائج ہوں‘ عوام کی سوچ‘ یقین اور کچھ کرنے یا تبدیل کرنے کی ہمت آنے والے عشروں کے دوران سیاسی ابلاغ کے مطالعے کا اہم موضوع رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں