الزام تراشی کا کھیل

وزیر خزانہ کے خلاف چارج شیٹ کا آنا اور معاشی بدنظمی کا ناقدانہ جائزہ‘ ایک طرح کا جوابی وار سمجھا جاتا ہے۔ ہر حزبِ اختلاف حکومت کی معاشی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ہی حکومت سے تعلق رکھنے والے دو وزیر آپس میں اُلجھ بیٹھیں کہ تباہی کا عمل کس نے شروع کیا تھا۔ موجودہ حکومت میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پہلے تو سابق وزیر خزانہ‘ مفتاح اسماعیل نے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں معیشت کو لاحق خطرات کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد موجودہ وزیر خزانہ‘ اسحاق ڈار نے اپنے ایک انٹرویو میں اُن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اُلٹا مفتاح اسماعیل کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا۔ یہ ڈرا دینے والی صورت حال دراصل ناکامی کا اعتراف ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت بالکل بوکھلا چکی ہے۔ گویا معیشت اس سے پہلے زمین بوس ہو سکتی ہے جس کا خدشہ محسوس کیا جارہا ہے۔
اتحادی حکومت میں بندوبست ہمیشہ سے ہی مشکل ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم میں ایک کے سوا تمام جماعتیں شامل ہیں۔ تیرہ جماعتوں کو کسی بات پر متفق کرنا‘ خوش رکھنا اور ان کی خواہشات کی پاسداری کرنا بہت مشکل اور مہنگا سودا ہے۔ اس میں مزید پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی کہ مرکزی حکمران جماعت داخلی طور پر دو خاندانوں میں بٹ چکی ہے۔ اب تک یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مسلم لیگ لندن اور مسلم لیگ پاکستان کئی ایک معاملات پر باہم متفق نہیں۔ پارٹی میں بالا دستی قائم کرنے کے لیے رسہ کشی تو شروع سے ہی واضح تھی لیکن دور فاصلے پر رہتے ہوئے پالیسیاں نافذ کرنے کی جنگ نے عملی طور پر پالیسی سازی کو معطل کررکھا ہے۔ کسی بھی اور شعبے میں شاید بدانتظامی اتنی واضح نہیں جتنی معاشی میدان میں۔ اس نے تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ابھی مزید کرے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سیاسی سرمائے کو بھی زک پہنچی ہے۔ نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے باوجود (ن) لیگ چاہتی ہے کہ صورت حال جوں کی توں موجود رہے۔ اور یہ راستہ ان کی سیاسی تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اپنی یقینی تباہی کا راستہ جان بوجھ کر چننے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ معاشی اور سیاسی استحکام کا متناقضہ: اقتصادی اشارے پیش گوئی پر مبنی ہیں۔ پیش گوئی رجحانات اور قیاس آرائیوں کے پیچھے چلتی ہے۔ جیسے جیسے رجحانات کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور معیشت کی مستقبل کی شکل پر قیاس آرائیاں شروع ہوتی ہیں‘ معیشتیں ڈگمگاتی اور گر جاتی ہیں۔ کوویڈ کے دوران طلب اور سپلائی کے درمیان تعطل پیدا ہونے اور پھر قیمتوں میں اضافے کا معاملہ سیدھا سادا تھا۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتوں پر بڑا دباؤ پڑا۔ تاہم پاکستان نے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس نے مالی سال 2020-21ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 5.74فیصد تک رکھی اور مالی سال 2021-22ء میں 6فیصد تک پہنچ گئی لیکن مالی سال 2022-23ء میں شرح نمو اس سے کم کیوں ہو گئی؟ وجہ سیاسی بے یقینی ہے۔ حکومت کی اچانک تبدیلی غیر مقبول اور متنازع تھی۔ اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کے ردِعمل نے مستقبل کو غیر یقینی اور غیر متوقع بنا دیا ہے۔ حکومت ملک میں یقین دہانی اور مثبت اشارے پیدا کرنے والی معاشی پالیسیاں بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ فِچ‘ موڈیز اور ایس پی جیسی بڑی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ کو منفی کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف مزید قرضہ دینے سے کترا رہا ہے۔ جب آئی ایم ایف قرض نہیں دیتا ہے تو دیگر ڈونر ایجنسیاں بھی ہاتھ روک لیتی ہیں۔ اس سے روپے کی قدر‘ افراطِ زر اور ذخائر وغیرہ پر بہت زیادہ دباؤ پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں مزید سیاسی بے چینی پیدا ہوگی۔ غیر یقینی صورت حال مزید معاشی بگاڑ کا باعث بنے گی۔ اس شیطانی چکر کو ختم کرنے کے لیے نئی اننگز کا آغاز کرنا ہوگا۔ ان حالات میں حکومت کسی معجزے کی امید کر رہی ہے۔ کچھ معجزے ایسے ہوئے جیسے تیل کی قیمت 80ڈالر سے نیچے آگئی لیکن حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی۔ اسی لیے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت حالات سدھارنے کے بجائے مزید خراب کرکے جائے گی۔ اس کی وجہ سے مقامی اور عالمی سرماریہ کاروں نے '' ہم سے دور رہو‘‘ کی جھنڈی دکھانی شروع کردی ہے۔
2۔ امداد لینے کی پالیسی: محصولات میں تقریباً کوئی اضافہ نہ ہونے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں زبردست اضافے کی وجہ سے خسارہ لازمی ہے۔ اس خسارے کو دور کرنے کا واحد طریقہ مزید قرض لینا ہے۔ موجودہ حکومت کی واحد سعی قرض لینے کے مزید ذرائع کی تلاش ہے۔ اس کے پاس واحد جواز سیلاب کے نقصانات کیلئے امداد ہے جسے حاصل کرنے کیلئے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں جھونک رکھی ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو ایک تخمینہ بھیجا جسے غیر مصدقہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔ پوری دنیا میں پیسے کیلئے وزیراعظم اپیلیں کر رہے ہیں۔ ہر قیمت پر فنڈز حاصل کرنے کی ذہنیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قرض حاصل کرنے یا واجب الادا رقم میں وقت حاصل کرنے کو اپنا عظیم معاشی کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ COP 27 میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کیلئے عالمی نقصان اور نقصان کے فنڈ کے قیام پر خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ حکومت نے موسمیاتی بجٹ میں 30فیصد کمی کرکے دراصل کوئی داخلی حکمت عملی اور صرف بیرونی فنڈنگ پر انحصار کی پالیسی کو جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ عطیہ دہندگان کی تھکاوٹ اور قرض دینے والے ادارے سے گریز کا باعث بنے گا جس کی وجہ سے مفتاح اسماعیل نے پہلے ہی ڈیفالٹ سے خبردار کردیا ہے۔
3۔ پوشیدہ حمایت: عدم اعتماد کا ووٹ ایم کیو ایم‘ بی اے پی اور ان جیسی دیگر سپانسر شدہ جماعتوں کو حکومت سے نکالنے اور ان کے ووٹوں کو 13جماعتوں میں شامل کرنے کے ذریعے ممکن بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سے انتشار پھیلنا لازمی ہے۔ نیز کسی کا احتساب نہیں ہو پائے گا۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں‘ انہوں نے عام لوگوں کو ریلیف دینے کے بجائے خود کو ریلیف دینے کے لیے قانون سازی کی۔ نیب قوانین کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ ان کے خلاف تمام ریفرنسز خارج کر دیے جائیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز ووٹنگ کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس نے انہیں اس حقیقت سے غافل کر دیا ہے کہ انہیں کارکردگی دکھانی ہے۔ جلد یا بدیر انتخابات ہونے ہی ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے اتحادی جماعتوں کا کچھ حلقوں پر حد سے زیادہ بھروسا شاید کام نہ آئے جو کہ 17 جولائی اور 16اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں ثابت ہو چکا ہے۔
4۔ توجہ دلانے والے سے جان چھڑا لیں: عمران خان سے کسی بھی قیمت پر جان چھڑانا ان کا جنونی ہدف بن چکا ہے۔ جلسے‘ بیانات‘ پریس کانفرنسیں‘ ٹاک شوز وغیرہ‘ سب کچھ ایسا طریقے تلاش کرنے کے بارے میں ہے کہ جس سے کسی طرح عمران خان کو مائنس کرنے کی حکمت عملی کا جواز پیدا کیا جائے۔ ان کے پاس تکنیکی بنیادوں پر کسی نہ کسی طرح نااہل قرار دینے کا قانونی منتر موجود ہے۔ عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لیے کچھ کیسز/ ریفرنسز تیار کرنے کے لیے یہ ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں لیکن عمران خان کو رکاوٹ سمجھ کر ہٹانے کی کوشش میں وہ اپنے راستے میں مزید کانٹے بورہے ہیں ۔
سب منتظر ہیں: حکومت کی تقدیر اور اس ملک کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ ماضی میں لیے گئے فیصلے پٹ چکے۔ نجی محفلوں میں اس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کا غلط اندازہ‘ عوامی ردِعمل سے ناواقفیت‘ پی ڈی ایم حکومت کی نااہلی یہ سب غلطیاں تھیں جن کا اعتراف تو کیا گیا لیکن اصلاح نہیں کی گئی۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ ملک تباہی کی طرف بڑھنے کے باوجود کوئی اصلاح کیوں نہیں کی جا رہی؟ حکومتی بے حسی کا جواب یہ ہے کہ وہ اتنی دور جا چکے ہیں کہ ان کیلئے الٹ جانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے۔ اس دوران وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ معیشت منہدم ہو رہی ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ جوں جوں سال اختتام کی طرف جا رہا ہے‘ سیاسی تعطل کو توڑنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ سب کی نظریں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان کھنچی سیاسی بساط پر لگی ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کس کی آنکھ جھپکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں