چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

''خدا کیلئے میرے بچے کو مت مارو‘اس کا کوئی قصور نہیں ‘ یہ معصوم ہے مر جائے گا‘‘۔''تم گٹر کی پیداوار ہو ‘ تم نے اس ملک میں کورونا پھیلایا ہے‘ تمہاری سزا موت ہے‘‘۔''میں انسان ہوں بھائی‘ انسانیت سے نفرت تو کوئی مذہب نہیں سکھاتا ‘ تم کس مٹی سے بنے ہو‘‘۔''تمہارے لوگ کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطر ناک ہیں ‘ نکل جاؤ اس ملک سے ‘ورنہ ہم تمہیں سانسوں سے آزاد کردیں گے ‘‘۔
مذکورہ بالا وہ آوازیں ہیں ‘جو ان دنوں بھارت کے گلی کوچوں اورچوک چوراہوں میں بہروں کو بھی سنائی دے رہی ہیں ۔کاش! ہندوسماج کے ماتھے کی یہ کالک تقسیم ہندسے قبل مولانا ابوالکلام آزاد جیسے کے اکابرین کو بھی دکھائی دے جاتی ‘تو آج بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ شودروں والا سلوک نہ ہو رہا ہوتا۔کاش! مسلمانوں کے بیچ کھڑی فکری دیوار ‘ دیوار چین ثابت نہ ہوتی۔ ؎ 
کون ایسا ہے جسے دست ہو دل سازی میں 
شیشہ ٹوٹے تو کریں لاکھ ہنر سے پیوند
انتہا پسندی صرف دماغی انتشار نہیں‘ بلکہ وہ ذہنی عارضہ ہے‘ جوایک فرد کو ہو جائے تو پورا خاندان تباہی کی چوکھٹ پر سر پھوڑتا ہے اور اگر یہ مرض حکمرانوں کو لاحق ہو تو پورا معاشرہ بانجھ ہو جاتا ہے ۔جب سے مودی سرکار آئی ہے بھارت کا جمہوری اور سیکولر چہرہ بری طرح مسخ ہو ا ہے اور اس کی وجہ بھارتی سماج کا ''ہندوتوا ‘‘ نامی بیماری کا شکار ہوجانا ہے ۔ یہ بیماری بھی کورونا کی طرح تاحال لادوا ہے ۔ اس کی بھی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ۔ مودی سرکار تجربات کی اندھی کوٹھڑی میں گھسی ہے اور مسلمانوں کو تختہ مشق بنا رہی ہے ۔ کبھی کشمیر میں کرفیوکو اس کا علاج سمجھا جاتا ہے ‘ کبھی شہریت بل سے اس جان لیوا مرض کا علاج کیا جاتا ہے اور اب کورونا کو مسلم وائرس کہہ کر ذہنی خلفشار کم کرنے کی سعی ہو رہی ہے ‘جو کسی طورانسانیت کی معراج نہیں ۔
آپ انڈین ٹی وی دیکھیں ‘ اخبارات کی ورک گردانی کریں یا بھاریتوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جائیں تومسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ کورونا وائرس کو '' بائیو انسانی بم ‘‘کہہ کر مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جارہاہے ۔ امریکی اخبار'' واشنگٹن پوسٹ ‘‘کے مطابق صرف چند روز کے دوران ''کورونا جہاد ‘‘کے ہیش ٹیگ کے ساتھ تین لاکھ سے زائد ٹوئیٹس سامنے آئے ہیں‘جنہیں کروڑوں لوگوں نے لائیک اور شئیر کیا ہے ۔سوشل میڈیا پر لگنے والی آگ اب انڈیا کی گلی گلی میں پھیل چکی ہے‘ دلی کی ہزاروں سالہ تاریخ میں کبھی ہندو سبزی اورمسلم سبزی کے الگ الگ ٹھیلے نہیں لگے‘ مگر آج کے بھارت میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کو اچھوت کہہ کران کی دکانوں کا بائیکاٹ کردیا ہے ‘جس سے مسلمانوں کی معاشی بے بسی اور بڑھ گئی ہے ۔ یہ کوئی عقلی خطا نہیں بلکہ بیمار معاشرے کا چہرہ ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ داغ دار ہو رہا ہے ۔مجھے اگست دوہزار تیرہ کی وہ شام یاد ہے‘ جب میں حضرت نظام الدین اولیاؒکے حضورسرور اور سرشاری کی کیفیت میں کھڑا تھا‘ لگ بھگ بیس قدم دور حضرت امیر خسروؒ کی چوکھٹ تھی‘ جہاں دوزانوں بیٹھ کر میں کسی اورجہاں کے دریا میں ڈوبا اور پارنکل گیا۔ اگلاپڑاؤ اسداللہ خاں غالبؔ کے محلے بلی ماراں کا تھا‘ جو یہاں سے دو گلیاں دور تھا ۔باہر نکلاتو بہت بھیڑ تھی میں نے دنیا نیوز کا مائیک نکالا اور دوقومی نظریے ‘ تقسیم ہند اور آج کے ہندوستان پرسینکڑوں لوگوں سے بات کی ۔سارے مسلمان خوش تھے اور اپنے اجداد کے انڈیا میں رہنے کے فیصلے پر شاد۔ اگلے روز بمبئی کا قصد تھا‘کیونکہ حضرت حاجی علیؒ کے ہاں سے بلاوا آیا تھا‘ وہاں کے مسلمان کے نظریات بھی کھڑے پانی کی طرح ساکت نہ تھے ‘ وہ بھی اپنے دیس سے مخلص تھے اور آخری سانس تک وہیں رہنا چاہتے تھے ۔؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا 
میں عالم حیرت میں ہوں کہ چھ برسوں میں ایسا کیا ہوا ہے؟ جو ہندوستانی سوچ نے دہشت گردی کا روپ دھار لیا ہے اورمسلمانوں پر سنگ باری اور الزام تراشی کی توپیں چلائی جارہی ہیں ۔اس کی وجہ مودی اور امیت شاہ جیسے سفاک کردارہیں ‘جن کی آنکھوں پر موروثی عقائد کے جمود اور تقلیدی ایمان کی پٹیاں بندھی ہیں‘جس کے باعث انہیں عین روشنی میں بھی اندھیرا نظر آتا ہے ۔ نریندرمودی اور امیت شاہ کو کون سمجھائے کہ دنیا میں کوئی مذہب بھی جغرافیائی نہیں ہوتا ''ہندوتوا‘‘ ایک شرپسند مذہبی سوچ کا نام ہے یہ کوئی شاہراہِ عام نہیں ہے کہ اس پر سب کا چلنا لازم ہے ۔ مودی اور امیت شاہ کو کون سمجھائے کہ جمہوریت کا پہلا سبق خیالات کا توازن اور آخری حسن برداشت ہے ۔ آرٹ سے وابستگی تو انسان کو مثبت اور متوازن رکھتی ہے‘ مگریہاں میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ فنون لطیفہ کے دلدادہ قوم فکری اور نظریاتی توازن کیوں کھو بیٹھی ہے ؟ پوری دنیا کورونا وائرس کیخلاف نبردآزما ہے اور بھارتی عوام اور حکومت مسلمانوں کے ۔ طرفہ تماشہ دیکھیں بھارت میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو علیحدہ وارڈز میں رکھا جارہا ہے ۔اس نا انصافی کیخلاف‘ اگر کوئی باضمیر ہندوستانی آواز اٹھاتا ہے تو اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یوں لگتا ہے نسلی اور لسانی نشے نے مودی کوہٹلر کی راہ کا مسافربنا دیا ہے۔ 
سابق بھارتی وزیراعظم نہرو کی بھانجی نین تارا کا کہنا ہے کہ ''صرف مسلمان ہی مودی سرکار کے ظلم اور بربریت کا شکار نہیں‘بلکہ جو بھی ہندو مذہب کی بدصورت اور خطرناک تبدیلیوں پر سوال اٹھاتاہے تو اسے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے یا پھر قتل ‘‘۔ مودی کیسے بھول گئے کہ معاشروں میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ غربت‘ جہالت اور ناانصافی ہوتی ہے اور آج کا بھارت اس سماجی تفریق کا گڑھ بن چکا ہے ۔غربت اور جہالت کی آنچ پر پکنے والی ہانڈی ہمیشہ زہر اگلتی ہے اور اس کے چھینٹے سب پرپڑتے ہیں ۔ یہ شدت انگیزی آج مسلمانوں کو سہنا پڑرہی ہے‘ کل کو یہ آگ''ہندوتوا ‘‘کی بے رنگ اور میلی چادر کی طرف بڑھے گی تو مودی جی کہا ں منہ چھپائیں گے ؟ بقول شاعر؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو 
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں