جیسے عوام ویسے حکمران

پاکستانی قوم نے یہ کیا غضب کیا کہ قائداعظم کی روح کوہی آزردہ کردیا ۔ اتنی بے حسی ‘ اتنی خود غرضی اور اتنی لا پروائی ۔ محمد علی جناح قائداعظم بننے سے برسوں پہلے بمبئی کی عدالت میں جج سے مخاطب تھے'' میری زندگی قانون سے محبت اور ڈسپلن سے معطر ہے‘‘۔تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم نے ان لفظوں کا آخری سانس تک پہرہ دیا ‘مگر المیہ دیکھیں ! پاکستانی قوم آج بھی نظم وضبط ‘ سلیقہ ‘ اور احساسِ ذمہ داری سے کوسوں دور کھڑی ہے ۔قوم توازن اور ترتیب کا دوسرانام ہوتا ہے‘ مگرافسوس کہ ہم بھیڑوں کے ریوڑجیسے بھی نہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا ۔ 
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر ؔمجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
یہ شعروزیراعظم عمران خان کی الجھن اور بے بسی کا عکاس ہے ۔ وزیراعظم پچاس دن تک''اشرافیہ‘‘کومناتے رہے کہ لاک ڈاؤن ملکی معیشت کا جنازہ نکال رہا ہے ‘ خدارا بھوک سے مرتے لوگوں کا خیال کرو اور لاک ڈاؤن کی اذیت کو ختم کردو۔ آخر کفر ٹوٹا خدا خداکرکے‘ وزیراعظم کی انتھک محنت رنگ لائی اورعوام کوسٹرکوں پر دندنانے کی چھوٹ مل گئی۔اب پوچھنا یہ ہے کہ عوام میں سے کوئی ہے جو بتائے کہ وزیراعظم نے اتنی کوششیں کس کے لیے کیں ؟ کوئی ہے جو بتائے کہ وزیراعظم نے اتنابڑا رِسک لے کر'' اشرافیہ‘‘ کوکس کے لیے منایا ؟ یقینا وزیراعظم نے یہ سب لٹے پٹے عوام ‘ سسکیاں لیتے تاجراور دم توڑتی معیشت کو بچانے کے لیے کیا ۔ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے ‘مگر ہمارے عوام اور کاروباری حضرات نے وزیراعظم کو ہی ''اشرافیہ‘‘ کے سامنے شرمندہ کروا دیا ۔ حضرت علیؓ کا قول ہے جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ مجھے دکھ ہوا کہ عوام نے ڈسا بھی تو کس کو‘جو اِن کا اس حکومت میں سب سے بڑا خیر خواہ تھا ۔
کراچی ‘ لاہور‘ پشاوراور تمام بڑے شہروں کے عوام نے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ایسے بازاروں کا رخ کیا جیسے کہیں کورونا کی ویکسین مفت بٹ رہی ہو‘ جیسے ہیروں کی کان کو عوام کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہو ۔ ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ خدا کی پناہ ۔ اتنی بھیڑ؟ اتنا رش ؟ اتنی بے احتیاطی ؟ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عوام اتنے نڈر کیسے ہو سکتے ہیں؟ دوسرا‘ عید پر وہ جا ئیں گے کہاں جو اتنے مہنگے مہنگے جوڑے خریدے جارہے ہیں ؟ ذرا سوچیں اسی بازار میں اگر آپ کورونا وائرس کا شکار ہوگئے تو عید پر کہاں ہوںگے ؟ آپ کے بہن بھائی ‘بچے اور والدین کی حالت کیسی ہوگی ؟ وزرا کے بیانات سے لگتا ہے کہ وزیراعظم اب عوام کے بے صبرے پن کی وجہ سے د وراہے پر آن کھڑے ہیں ‘ ایسا نہ ہو اس بار وہ خود ''اشرافیہ‘‘ کو لاک ڈاؤن کی تجویز دے دیں۔ وزیراعظم شاید بھول گئے کہ جمہوریت میں سب سے بڑی اشرافیہ عوام ہوتے ہیں ۔ آپ نہ دِکھنے والی'' اشرافیہ‘‘ کو تو کسی نہ کسی طرح منا لیتے ہیں‘ مگر عوام تو من موجی ہوتے ہیں‘ یہ صرف اپنے فائدے اور نقصان کی سنتے ہیں۔ نظم وضبط کا فقدان صرف ہمارا مسئلہ نہیں ‘پورا خطہ ہی ایسا ہے ۔ ایران میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی مگر عوام نے احتیاط نہ کی جس کے بعد صوبہ خوزستان کو دوبارہ بند کردیا گیا ۔ جنوبی کوریا میں وائرس سے متاثرہ نوجوان ایک رات کے اندر پا نچ مختلف کلبوں میں دس ہزار افراد سے ملا جس کے بعد پورے شہر کے 2100 کے قریب کلب پھر سے سِیل کردیے گئے۔ انڈیا میں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جس کے بعد مودی سرکار ہوش کھو بیٹھی ہے کہ کیا کیا جائے ۔ شاید کم ترقی یافتہ ممالک کی نفسیات زیادہ مختلف نہیں ہوتی‘ اسی لیے ایک جیسے مسائل سر اٹھاتے رہتے ہیں‘جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بڑافرق ڈسپلن کا ہے ۔ مغربی باشند ہ نظم و ضبط کا پابند ہوتا ہے‘ جبکہ ہم ٹھہرے بے ترتیبی کے بادشاہ ۔
جیسے عوام ویسے حکمران ! اگرہماری قوم میں ڈھنگ اور سلیقہ ہوتا تو ہمارے حکمران‘ سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ اتنے لاپروانہ ہوتے ۔ وبا کے دنوں میں اندرونی جنگ کو ہوا نہ دیتے ‘ اٹھارہویں ترمیم جیسے بے وقت کے راگ نہ آلاپے جاتے ‘ صوبائی اختلافات کو ذاتی سیاست کی نظر نہ کیا جاتا ‘ پارلیمنٹ کے اجلاس میں سوتن والی لڑائی پھر شروع نہ ہوتی اورعوام کو کنفیوژ کر کے حکمرانوں نے گھر بیٹھ کر لڑنے والی جنگ بھی ہاری نہ ہوتی۔ حکومت وقت میں معیشت کا اتنا درد ہوتا تو پہلے عوام کی تربیت کی جاتی اور پھر مرحلہ وار لاک ڈاؤن کو نرم کیا جاتا ۔اس بات سے کوئی انکاری نہیں کہ کورونا اور معیشت دونوں ہی بڑے مسائل ہیں‘ مگر یہ جنہوں نے حل کرنے ہیں ان کے مشاغل اور ہیں ۔ اب بھی وقت ہے حکمران انانیت مار کر راہ ِراست اختیار کرلیں ورنہ عالمی معیشت پر اقوام متحدہ کی رپورٹ دل دہلادینے والی ہے ۔ یواین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اگلے دو سالوں میں ورلڈ اکانومی کو 8.5 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے ‘ جبکہ اس سال 34 ملین افراد خط ِغربت سے نیچے لڑھک سکتے ہیںاور عالمی تجارت میں 15 فیصد کمی متوقع ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے بارے کہا گیا ہے کہ ان کی ترقی کی رفتار منفی میں چلی جائے گی۔
پاکستانی قوم جان لے کہ قائداعظم کو جس اصول سے محبت تھی آپ اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ‘اگر عوام جہالت کے دیے بجھا دیں توایک دن آئے گاجب کورونا وائرس ماضی کا قصہ بن جائے گا ‘ پھر بازار بھی روشن ہوںگے اور مساجد بھی آباد ہوں ہوںگی ۔ عید بھی آئے گی اور شادیوں میں ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی ہوگا ‘ مگر یہ سب تب ہی ہو گا جب آپ خود کو وائرس سے محفوظ رکھیں گے ۔نہایت آسان نسخہ قائداعظم کے قول میں موجود ہے‘ پھر پڑھیں ''میری زندگی قانون سے محبت اور ڈسپلن سے معطر ہوتی ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں