عزیر بلوچ نے بلاول بھٹو بارے کیا کہا؟

لیاری کی تنگ وتاریک اور گند سے اٹی گلی میں عزیر بلوچ کے گھر چوتھی بار داخل ہوا تو کانپ اٹھا ۔ ہر سو پھیلا خوف میرے اندر بھی اتر گیا ۔ ایک لمحے کے لیے لگا میں کسی عقوبت خانے میں آگیا ہوں ‘ وہاں وحشت کا راج تھا جو ہر آنے والے کو کاٹ کھانے کودوڑتا تھا ۔یہ گھر‘ گھرنہیں بلکہ مقبرہ تھا ان تمام مظالم کا ‘ ان سارے جرائم کا ‘ جو عزیر بلوچ کے حکم پرہوتے تھے۔ اس مکان کے درودیوار چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ ہر عروج کو زوال ہے ۔جہاں کبھی لیاری کا بے تاج بادشاہ عزیر بلوچ رہتا تھا وہاں اب صرف ویرانی تھی اور اداسی‘ موت جتنی بے رحم اداسی ۔ نظر گھما کر دیکھا تو اس بارکوئی بندوق تھی نہ گولی ‘ منشیات کی بو تھی نہ بارود کی ‘ صرف چھ نقاب پوش خواتین خالی تالاب کو گھور رہی تھیں ۔کیمرہ دیکھ کر عزیر بلوچ کی بیٹی اور پھوپھی آگے بڑھیں اور دھاڑیں مارکر رونے لگیں ۔ بیٹی کا کہنا تھا ''میراوالد شریف ترین انسان ہے ‘ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ غریبوں کا ہمدرد ہے ۔ حکومت اسے جان بوجھ کر پھنسا رہی ہے۔ ہماری مالی حالت نہایت خستہ ہو گئی ہے ‘ ابو کا کوئی دوست ہماری مدد نہیں کر رہا‘‘۔ یہ واقعہ مجھے عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پڑھتے ہوئے یاد آیا تو سوچ میں پڑگیا کہ198 افراد کے قاتل کی بیٹی اب کیامحسوس کررہی ہو گی ؟کروڑوں کا بھتہ اور اربوں کی لوٹ مارکرنے والے کا خاندان دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہو گا ؟عزیر بلوچ کی رسی دراز تھی ‘ جو اب کٹ چکی ۔ آج نہیں تو کل اسے اپنے کیے کا حساب چکانا ہے‘ یہی قانونِ فطرت ہے ۔
جرم اور سیاست کا بندھن صدیوں پراناہے ۔یونانی ‘ فرانسیسی اور جرمن ادب کا مطالعہ کریں تو یوں لگتا ہے کہ سیاستدان جرائم پیشہ افراد کے بغیر پنپ ہی نہیں سکتے‘ برطانوی اور روسی کہانیاں بھی اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتی نظر آتی ہیں ۔ بھارت میں تو انڈر ورلڈ کو سیاست کا لباس تصور کیا جاتا ہے‘ شایدیہی وجہ ہے کہ ممبئی میں کوئی ایسی فلم نہیں بنتی جو اس پیرہن پر لگے دھبوں کو اور نمایاں نہ کرتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لاشوں ‘ بھتوں‘ لسانی فسادات اور جلاؤگھیراؤ کا مکروہ دھندہ الطاف حسین نے شروع کیا‘جسے بامِ عروج پر پیپلز امن کمیٹی نے پہنچایا ۔جرائم کی اتنی بھیانک داستان کبھی ہماری فلموں میں نہیں دکھائی گئی جو کراچی اور لیاری کے باسیوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔2011ء میں سیاسی جماعتوں کے کارندوں نے کٹی پہاڑی پر جو موت کا منظرپیش کیا تھا اس کی نظیر کراچی کی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ بنارس کے پل پر جس طرح عام شہریوں کو بسوں سے اتار کر گولیوں سے بھونا گیا ‘ شاید ہی کوئی کراچی والا بھول پایا ہو۔ لسانی بنیادوں پر ہونے والی سیاست نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو دوزخ جتنی ناپسندیدہ جگہ بنا دیا تھا۔کراچی میں ان دنوں انسانوں کوصرف انسانوں سے خطرہ تھا کیونکہ وہاں موت سستی اور زندگی مہنگی تھی ۔ 
جن لوگوں نے لیاری کو قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ جے آئی ٹی رپورٹ عزیر بلوچ کے مظالم کی ادھوری کہانی بیان کرتی ہے ‘ اصل حقائق اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔چند پولیس افسروں کے تبادلے‘ درجنوں بڑی شخصیات کا قتل ‘ کروڑوں کے بھتے ‘منشیات کی سمگلنگ‘ سیاسی آقاؤں کی غلامی اور قومی راز ایران کوبتانا ۔ کیا صرف یہی عزیر بلوچ کے گناہوں کی فہرست ہے ؟کیا عام آدمی کی ہنستی مسکراتی زندگی میں زہر گھولنا کوئی جرم نہیں ؟ کیا فٹ بال کے کھلاڑیوں کو منشیات فروش بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ؟ کیا لوگوں کے گھروں پر گرنیڈ ‘ راکٹ لانچر اور گولیاں برسانا کسی تعزیر کے زمرے میں نہیں آتا ؟ اس جے آئی ٹی میں سب کچھ ہے مگر عا م آدمی کی کہانی غائب ہے ۔ لیاری کے لاکھوں رہائشی کتنے ہی سال موت کی پگڈنڈی پر سفر کرتے رہے ‘ کیا کسی نے ان کا حساب مانگا ؟
2013ء میں عزیر بلوچ کے گینگ نے جس طرح لیاری کی کچھی برادری کو عبرت کا نشان بنایا تھا‘ کیا کوئی باضمیر انسان وہ کرب ناک منظر بھول سکتا ہے؟ کچھی برادری کے ہر گھر پر راکٹ اورگرنیڈ بارش کی طرح برسائے گئے۔ عزیر بلوچ کے غنڈوںنے گھروں میں گھس کر عام لوگوں کو گولیوں سے بھوننا شروع کیا تو ساری کچھی برادری لیاری چھوڑ کر ٹھٹھہ اوربدین چلی گئی ۔ محلے کے محلے ویران ہوگئے ‘ ہر گلی میں ہو کا عالم تھا ‘ موت ہر چوراہے پر رقصاں تھی مگر مجال ہے حکومت کہیں نظر آئی ہو۔ایک مہینے تک لیاری میں جنگی ماحول رہا مگر پولیس نے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے کوشش تک نہ کی۔انہی دنوں عزیربلوچ سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا نے آپ کو لاکھوں اسلحے کے لائسنس کیوں دیے ؟ لیاری گینگ وار کے سربراہ نے بے ساختہ جواب دیا'' مہاجروں اور پٹھانوں کی لڑائی کے بعد انہیں خدشہ تھا کہ الطاف حسین لیاری میں قتل عام کروائے گا ‘‘ ۔ 
لیاری کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں مختلف گینگ آپس میں لڑتے تھے اور مرتا عام شہری تھا ۔ ہفتوں کاروبا ر بند رہتا اور پھر بھی بھتہ دینا پڑتا۔پولیس نے یہاں جب بھی آپریشن کیا ‘ نا کام ہی رہی‘وہ کبھی لیاری کی گلیوں میں داخل نہ ہوسکی کیونکہ وہاں گینگسٹرزگھسنے نہیں دیتے تھے ۔ ایس ایس پی چودھری اسلم نے دس دن تک لیاری کی ناکہ بندی کی مگر بے سود ۔ عزیر بلوچ اور بابالاڈلا گروپ کی لڑائی گینگ وار کا عروج تھا۔ پورے لیاری میں خانہ جنگی تھی ‘ لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال تھا ۔ اگر کوئی غریب اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نکلتا تو اس کی لاش چوراہے سے ملتی ۔ ہر طرف فاقے تھے ۔ شاید یہی دن تھے جب کسی مظلوم کی آہ عرش تک پہنچی اورقدرت کو لیاری والو ں پر رحم آگیا ۔ لیاری سمیت پورے کراچی میں رینجر ز اور پولیس نے آپریشن کیا ‘ جس کے بعدسارے گینگسٹرز اپنے انجام کو پہنچے ۔ 
عزیربلوچ کی موجودہ تصاویر دیکھیں تو رحم کرنے کو جی کرتاہے ‘ پورے کراچی کو اپنی دہشت سے ڈرادینے والاشخص کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ واہ مولا تیری قدرت ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عزیر بلوچ جیسے بدمعاش کسی زمانے میں لاہور میں بھی ہوا کرتے تھے ۔ وہ بھی اپنے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے ہمیشہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن کرتے۔ عاطف چودھری ‘ حنیفا بابا ۔ ایسے کتنے ہی کردار تھے جو لاہور میں اہم سمجھے جاتے تھے مگرپھر کیا ہوا؟ ایک سے بڑھ کر ایک عبرت ناک موت ۔حنیفا باباکو پولیس نے بتا یا کہ تمہا رے پاس آدھا گھنٹہ ہے تو اس کی شلوارگیلی ہوگئی تھی ۔ سینکڑوں لوگوں کا قاتل ایک گولی کی دہشت سے ڈر گیا ۔ اندرونِ شہر کا ایک اور بدمعاش باسو مارا گیاتو اس کی بیوی آخری سانسوں تک لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی رہی ۔ سنا ہے عزیر بلوچ کے بچے بھی قابلِ رحم زندگی گزار رہے ہیں ۔انہیں ہر وقت آنے والے کل کی فکر کھاتی ہے ۔عزیر بلوچ کے لیے اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے بچوں کولوگ ترس کھا کر بھیک بھی نہ دیں۔ 
یقین مانیں ‘عزیربلوچ جیسے سستے غنڈے کبھی اتنے اہم نہ ہوں اگر انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ جے آئی ٹی میں پیپلزپارٹی کی قیادت کا نام ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا ‘ مگر ایک بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی پچاس سالوں میں لیاری کا قرض نہیں اتار سکی ۔ جتنی محبت لیاری نے پیپلز پارٹی سے کی بدلے میں بھٹو کی جماعت نے کیا دیا؟ امن‘ جو ہر شہری کاآئینی حق ہوتا ہے وہ بھی لیاری کو نصیب نہ ہوا ۔ عزیر بلوچ آخری دنوں میں پیپلز پارٹی سے تھوڑا ناراض تھا‘ میں نے اس سے سوال کیا ''لیاری میں پیپلز پارٹی اور عزیر بلوچ کتنے لازم وملزوم ہیں؟‘‘ گینگسٹر کا جواب چونکا دینے والا تھا: لیاری پیپلزپارٹی سے مایوس ہوچکا ہے ‘میں اگر ساتھ نہ دوں تو اگلے الیکشن میں بلاول بھٹو بھی یہاں سے جیت نہ سکے۔ اور پھرعجب اتفاق ہوا کہ 2018ء کے الیکشن میں بلاول بھٹوزرداری لیاری سے ہار گئے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں