کیا کوئی جواب دے گا؟

وعدے برف پر لکھو اور دھوپ میں رکھ دو،کیا کریں یہی ہماری سیاست کا چلن ہے۔حکمرانی کی غلام گردشوں میں اپنی بات سے مکر نے یا بھول جانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ جودھا اکبر کی اس پازیب کی طرح مدام، جسے اس کی ساس نے پہناتے ہوئے کہا تھا ''اس پازیب کی حفاظت تم پر لازم ہے کیونکہ یہ راجپوتی تلوار کی طرح لافانی ہے‘‘۔ ہماری سیاست کی بدقسمتی ملاحظہ کریں؛ یہاں بھی جو چیز سب سے زیادہ دائم رہنے والی ہے‘ وہ عوام سے وعدہ خلافی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے والوں اور اپوزیشن والوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کو وتیرہ بنا لیا۔ایسا کرکے وہ عوام کی توجہ اپنی ناقص کارکردگی اور کیے گئے وعدوں کے پورا نہ ہونے سے ہٹا سکتے تھے۔ یہ حکمتِ عملی ان کے لیے خاصی کامیاب رہی۔ شاید اسی وجہ سے یہاں وقت بے وقت کی راگنی گائی جاتی ہے۔ وبا کے دن ہیں تو کیا ہوا؟ سیاست میں تہمت تراشنا اور طعنہ زنی کرنا تو کھیل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آتی‘ بلاول بھٹو زرداری کس طرح وزیراعظم عمران خان پر تنقید کر لیتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں‘ وہ خود بھی ایک صوبے میں حکمران ہیں؟ پیپلزپارٹی بارہ سال سے سندھ اور کراچی کے عوام کے ساتھ کیا رویہ اپنائے ہوئے ہے؟ کیا وہ اب بھی نہیں جانتے کہ عہد شکنی کے باب میں ان کی جماعت‘ تحریک انصاف سے بھی دو قدم آگے ہے؟ 
پی ٹی آئی کی حکومت سے دو سال کا حساب ضرور مانگنا چاہیے‘ یہ اپوزیشن اور عوام کا حق ہے مگر حساب مانگنے والے پہلے اپنے گھر کی تو خبر لے لیں، وہاں جو اندھیر مچا ہے اس کا جواب کون دے گا؟ وزیراعظم کو اپنی کارکردگی کا دفاع خود کرنا ہے مگر سندھ حکومت کا کیا دھرا تو آپ کو ہی بھگتنا ہے۔ وہ دن تمام ہوئے جب پیپلز پارٹی آصف زرداری کے اشاروں پر چلتی تھی، اب یہ جماعت بلاول بھٹو کے نام سے جانی جاتی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کی ساکھ کے ضامن ہیں، اس لیے چند گزارشات، چند التجائیں اور چند سوالات ان کی ''گڈ گورننس‘‘ کے بارے حاضر ِ خدمت ہیں:
(1) پیپلز پارٹی اٹھارہویں ترمیم کی خالق ہے اور موجودہ حالات میں اس کی نمبر ون داعی بھی۔ جب اٹھارہویں ترمیم پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو سندھ حکومت ہمیشہ گریزاں رہتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں اختیارات کو وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے لوکل گورنمنٹ کو منتقل کرنے کا پابند کیا گیا ہے مگر مجال ہے سندھ حکومت نے مقامی نمائندوں کو برائے نام بھی اختیارات دیے ہوں۔ سندھ میں اس وقت تیسرے درجے کی حکومت موجود تو ہے مگر اختیارات صوبائی حکومت کی تجوری میں رکھے ہیں جسے وہ بہت سوچ سمجھ کر استعمال میں لاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مون سون کی حالیہ بارشوں نے کراچی کی گلیوں کو گندے نالوں میں بدل دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں ہر دن گرجنے والے بلاول بھٹو کو اہالیانِ کراچی کا دکھ نظر نہیں آتا؟ انہوں نے ایک بار بھی سندھ حکومت کی اس درجہ نااہلی پر جواب طلبی نہیں کی۔ کراچی کا مئیر ایک بار نہیں‘ ہزار دفعہ کہہ چکا ہے کہ میرے پاس کراچی کو صاف کرنے کا اختیار ہے نہ وسائل۔ اس کے باوجود اٹھارہویں ترمیم کے حق میں نعرے لگانے والی جماعت آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ وہ کسی قیمت پر بھی مقامی حکومتوں کو جائزاختیار دینے کو تیار نہیں۔ کراچی کوڑے کا ڈھیر بنے، بارشوں میں ڈوبے یا گندے نالے گھروں کو اپنے آغوش میں لے لیں، یوں لگتا ہے کہ سندھ حکومت کبھی اٹھارہویں ترمیم پر عمل نہیں کرے گی۔
(2) کراچی جیسا ٹرانسپورٹ کا نظام لاہور میں دہائیوں پہلے ختم ہو چکا مگر سندھ حکومت کو ان بوسیدہ لاریوں سے اتنی محبت ہے کہ انہیں بدلنے کا کوئی سوچتا بھی نہیں۔ نواز شریف دور میں سندھ حکومت کی پچاس فیصد پارٹنر شپ سے گرین لائن بس کا منصوبہ شروع ہوا جو چار سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکا۔ گرین لائن کے بعد سندھ حکومت نے بھی چار اور منصوبوں پر کام شروع کیا مگر وہ بھی تکمیل سے کوسوں دورہیں۔ یقین مانیں! کراچی کی سڑکوں پر رینگتی بسیں تھرپارکر میں چلنے والی پرائیویٹ کیکڑا گاڑیوں سے بھی بدتر ہیں۔ جانے کیوں کسی کو کراچی کے عوام پر ترس نہیں آتا؟ نجانے کوئی کیوں سندھ حکومت کو ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ 
(3) کراچی سمیت پورے سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔ لگ بھگ پندرہ سال قبل کراچی کے عوام کو پانی دینے کے لیے کے 4 منصوبوں کا آغاز ہوا جو آج بھی حکومتی بے حسی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 25 ارب سے 150 ارب پر چلی گئی ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پانی صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، خیرپور اور سانگھڑ سمیت پورے اندرونِ سندھ کا سب بڑا روگ ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت پانی کی فراہمی کے چھوٹے منصوبوں پر تو کام کرتی ہے مگربڑے منصوبے اس کی ترجیح میں نہیں۔ 
(4) سندھ کی 45 فیصد آبادی ناقص خوراک اور غذا کی کمی کا شکار ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ یورپی یونین کے ادارے Programme for Improved Nutrition in Sindh کے اعداد و شمار میں بتلائی گئی ہے جبکہ WHO کے مطابق تھرپارکر میں 45.9 فیصد بچے غذائی قلت کے باعث نہایت کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ سندھ کے دس اضلاع میں صورتحال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔ ورلڈ بینک، عالمی ادارۂ صحت اور یورپی یونین لاکھ جتن کریں‘ یہ مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب تک سندھ حکومت اسے مسئلہ سمجھتی نہیں۔ بلاول صاحب خود فیصلہ کریں‘ غذائی کمی کے شکار بچے معاشرتی تفریق کو کیسے ختم کریں گے؟ 
(5) یونیسف کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے 40 فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ کوئی ہے جو بتائے اس کی وجہ کیا ہے؟ سندھ کے سابق وزیر تعلیم سردار شاہ نے ایک سال پہلے حیرت انگیز انکشافات کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ بھر 9600 سکول ایسے ہیں جو بغیر بلڈنگ کے ہیں۔ گرمی‘ سردی اور دھوپ‘ بارش سے بے نیاز یہاں بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سردار شاہ کے مطابق سندھ بھرمیں تقریباً ایک لاکھ اساتذہ جعلی طور پر (گھوسٹ) کام کر رہے ہیں۔ سردار شاہ وزیر تعلیم تو نہ رہے مگر آپ خود دل تھام کے بتائیں کیا سندھ حکومت کی ترجیح میں تعلیم نظر آتی ہے؟
(6) ماہرین کا کہنا ہے کہ گندے پانی اور دیگر بے احتیاطیوں کی وجہ سے پورے صوبے میں ہیپاٹائٹس خطر ناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ سندھ میں ہر پانچویں موت اسی موذی مرض کی وجہ سے ہوتی ہے مگرسندھ حکومت کا دھیان اس طرف اتنا نہیں ہے جتنا بڑا یہ مسئلہ ہے۔ لاڑکانہ کے بچوں میں ایڈز کی کہانی تو ہر جگہ پہنچ چکی مگر سندھ کے ایوانوں میں اس کی بازگشت تھم چکی ہے۔ 
(7) کراچی اور حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا مسلسل بڑھتے چلے جانا بتایا جا رہا ہے۔ سندھ کے باقی شہروں میں روزگار کے مواقع کم اور دیگر سہولتیں کم تر ہیں جس کے باعث ہر شخص کراچی کا رخ کرتا ہے۔ کیا سندھ حکومت کو ان دونوں شہروں میں آبادی کا چیلنج نظر آتا ہے؟ کیا سندھ حکومت لاہور کی طرح کوئی نیا شہر بسانے کا منصوبہ رکھتی ہے؟ 
سندھ حکومت گزرے بارہ سالوں میں 2500 ارب سے زائد کا ترقیاتی بجٹ استعمال کر چکی ہے۔ کیا حکمراں کوئی ضلع نہیں‘ کوئی شہر نہیں‘ کوئی تحصیل نہیں‘ بلکہ ایک ماڈل یونین کونسل دکھائیں گے جہاں صحت کا نظام مثالی ہو، تعلیم کا معیار بہتر ہو، پینے کا پانی صاف ہو، سٹرکیں معیاری ہوں اور جہاں صفائی نظر آتی ہو؟ اور ہاں! ضروری نہیں یہ یونین کونسل کراچی کی ہو، وہ تو آپ کا میدانِ جنگ ہی نہیں ہے‘ وہاں آپ بھلا اتنا خرچ کیوں کریں گے؟ آپ یہ ماڈل یونین کونسل لاڑکانہ اور سکھر میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ عوام منتظر ہیں کہ ادھر سے کیا جواب آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں