بلاول بھٹو کی خواہش

کراچی میں بارش تھم چکی، پانی گھروں اور گلیوں سے نکل کر ندی نالوں میں بہہ گیا مگر افسوس! صد افسوس کہ سیاست کی اندھیری گلی میں اجالا نہ ہو سکا۔ خوف اور موت کی دیوار تلے برسوں سے تڑپتاکراچی‘ کل بھی لاوار ث تھا‘ آج بھی بے سہارا ہے۔ کل بھی لاچار تھا‘ آج بھی بے کسی کے عالم میں ہے۔ کراچی سب کا ہے مگر وائے قسمت کوئی بھی کراچی سے مخلص دکھائی نہیں دیتا۔ اہل سیاست خدا خوفی کریں! چار دہائیوں کے زخم اور اتنی عجلت، ایسی بددلی؟ چار دن کے لیے بھی یک زبان نہ ہو سکے۔سانجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پھوٹتی ہے، سو پھوٹ چکی۔ اب ڈھول بجانے والے ڈھول بجائیں یا بانسری، عوام کو کیا۔ انہیں جو امیدیں تھیں‘ وہ تو دھول ہوئیں اور لقمۂ خاک بنیں۔ میر تقی میرؔ نے صدیوں قبل شاید کراچی کے لیے ہی نوحہ گری کی ہو، کیونکہ جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں میرؔ کی بستی اور کراچی کے زخم ملتے جلتے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی اور لاپروائی وہاں بھی غالب تھی یہاں بھی ہے۔ 
میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
وزیراعظم کراچی گئے، اچھا کیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے مشاورت کی‘ مزید اچھا کیا۔ کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، نہایت اچھا کیا۔ مگر اُتم اچھا تب ہوتا جب وزراء کی زباں بندی کا بھی کوئی منصوبہ دوطرفہ طور پر پیش کر دیا جاتا۔ وفاقی حکومت ایک بات کر رہی ہے اور سندھ حکومت دوسری۔ چار سُو کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ کوئی جائے اور اہلِ اقتدار سے پوچھے‘ بھلا عوام کو اس سے کیا سروکار کہ کون 800 ارب روپے خرچے گا اور کون 300 ارب؟ کون کراچی پیکیج میں 62 فیصد کا حصہ دار ہے اور کون 38 فیصد کا؟ عوام کا اس سے کیا لینا دینا کہ سرکلر ریلوے پروجیکٹ سندھ حکومت کا ہے یا وفاق کا۔ K4 منصوبے کی تکمیل پر مراد علی شاہ کی تختی لگے گی یا وزیراعظم عمران خان کی۔ گند اور غلا ظت سے اٹے چھوٹے بڑے نالے این ڈی ایم اے صاف کرے یا بلدیہ کے اہلکار۔ سیوریج لائنز اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے پیسے کہاں سے آئیں اور بسوں کی حالت پر کون رحم کھائے گا، کوئی بتائے کراچی کے باسیوں کو اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ عوام تو بس اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ کوئی کرے، جیسے کرے۔ بس کراچی ساٹھ‘ ستر کی دہائی جیسا اُجلا اور شفاف ہو جائے۔
ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے حصے کا کام نہیں کرنا چاہتا۔ ہر ادارہ دوسرے ادارے کی طاقت کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بہتّر سالوں سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ وزیراعظم کو وزیراعلیٰ کے اختیارات اچھے لگتے ہیں تو وزیراعلیٰ میئر بننے کی حسرت رکھتے ہیں۔ ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز قانون سازی پر توجہ کم دیتے ہیں جبکہ یونین چیئرمین اور کونسلرز والے کام شوق سے کرتے ہیں۔ شہباز شریف سے بھی یہی گلہ تھا کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سے زیادہ لاہور کے میئر بنے ہوئے تھے‘ اب مراد علی شاہ اور عثمان بزدار بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیںکہ د نیا بھر میں شہروں کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نہیں سنوارتے بلکہ یہ فریضہ بلدیاتی نمائندے ادا کرتے ہیں۔ 
یقین مانیں! کراچی کا مسئلہ پیسہ ہے نہ کوئی پیکیج۔ صرف حکمرانوں کی نیتوں کا کھوٹ اس شہرِ بے مثال کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ممبئی میں سب اچھا ہے، ڈھاکا، لندن اور نیویارک میں عوام کے وارے نیارے ہیں تو کراچی سے آسیب کا سایہ کیوں ختم نہیں ہو سکتا؟ حکمران آج نیت ٹھیک کریں کل کراچی دوڑنے لگے گا۔ صرف ایک کام کراچی کو دوبارہ کھڑا کر سکتا ہے‘ اور وہ ہے مضبوط بلدیاتی سسٹم۔ کم از کم پرویز مشرف کے دور جتنا تگڑا۔ میں نے ممبئی کو 2013ء میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تو لگا کراچی آ گیا ہوں مگر ایک فرق تھا، بہت بڑا فرق۔ ممبئی صاف ستھرا اور بدانتظامی سے کوسوں دور جبکہ کراچی گندگی اور بد انتظامی کے ''ماتھے کا جھومر‘‘۔ ممبئی کی سڑکیں کراچی سے تنگ ہیں مگر ڈسپلن پوری طرح قائم ہے۔ کھوج لگایا تو پتا چلا کہ ممبئی گڈگورننس کے حساب سے بھارت کا بہترین شہر ہے۔ اس کو ساؤتھ ایشیا کے سب سے بڑے بلدیاتی سسٹم میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی (MCGM) کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ چوبیس میونسپل وارڈز پر مشتمل اس کارپوریشن کی کارکردگی غیر معمولی ہے جس کے باعث اس کا چرچہ پورے بھارت میں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ممبئی سے کمائے جانے والے پیسے کا بڑا حصہ اسی شہر پر خرچ ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم، واٹر سپلائی، صفائی اور بجلی کا نظام‘ سب کام پرائیویٹ کمپنیو ں کے ذریعے نہایت احسن انداز سے کیا جاتے ہیں۔ لندن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ 2000ء میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے Greater London Authority قائم کی گئی جس کی سربراہی میئر لندن کے سپرد ہے۔ پورے شہر کو اسی اتھارٹی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ بہت سے مبصرین کا ماننا ہے کہ اس اتھارٹی کے قیام سے لند ن کی خوبصورتی اور نظامِ زندگی میں بہت بہتری آئی ہے۔ڈھاکا، پیرس اور نیویارک میں بھی بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹی جاتی ہیں مگر خدا جانے کراچی کے نصیب میں اچھے دن کیوں نہیں آ رہے۔ یہاں کے پیڑ چھاؤں بیچنا کیوں بند نہیں کر رہے۔ بقول احمد فرازؔ ؎
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر 
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا 
یوں گمان ہوتا ہے کہ کراچی کی سانسیں بحال کر نے کے لیے طبیب بدل گئے مگر مرض ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ساری جماعتیں اپنے اپنے حصے کے مطابق سیاسی تجربات کرنے میں لگی ہیں‘ مگر آخر میں جوابدہی تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے ہونی ہے۔ اب بھی دامنِ وقت دراز ہے‘ دونوں حکومتیں سیاسی بلوغت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں وگرنہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ریس کراچی پیکیج کو کچل دے گی۔ قدرت نے موقع دیا ہے‘ اسے ضائع نہ کریں۔ جو زخم پانی سے دھلیں گے انہیں نمک سے مت صاف کریں، یوں نہ ہو کہ کراچی والوں کی آہیں سیاست کی بوسیدہ عمارت کو زمیں بوس کر دیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس شہر کے مسائل کسی ''متنازع پیکیج‘‘ سے حل نہیں ہوں گے۔ سیاسی اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ اگر کراچی کے ساتھ سنجیدہ ہیں تو ایک اے پی سی بلائیں۔ کراچی کو ماڈل شہر بنانے کے لیے سب سے تجاویز لیں۔ سیاست سے بالا تر ہو کر اس شہر کی طرف وسائل کا رخ موڑیں‘ پھر دیکھیں یہ شہر کیسے چمکتا ہے۔
یہاں مجھے 2016ء میں وزیراعلیٰ سندھ سے لاہور کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی ملا قات یاد آ رہی ہے۔ میں نے کافی کی چُسکی بھرتے ہوئے مراد علی شاہ سے پوچھا ''آپ کو کیوں وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا ہے؟ آپ ایسا کیاکریں گے جو قائم علی شاہ کے بس میں نہ تھا؟‘‘ وزیراعلیٰ نے انتہائی اعتماد اور پُرجوش انداز میں کہا ''میں بلاول بھٹو کی خواہش پوری کرنے آیا ہوں، وہ چاہتے ہیں سندھ پاکستان کا نمبر ون صوبہ ہو اور کراچی دنیا کا بہترین شہر! اب ہم کراچی کا مقدر بدل دیں گے۔ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، سیوریج سسٹم، پانی، بجلی اور امن ہماری ترجیح ہے۔ میں ہر حال میں بلاول صاحب کی یہ خواہش پوری کروں گا‘‘۔ یہ واقعہ مجھے دو ہفتے قبل یاد آیا تو میری آنکھیں شرم سے جھک گئیں، نجانے کیوں میں خود سے شرمندہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کوئی وسیلہ بنے تو وزیراعلیٰ سندھ کو بلاول بھٹو کی خواہش یاد کراؤں۔ شاید کچھ لمحوں کے لیے وہ احساس ان کے اندر بھی اجاگر ہو جو کراچی کو ڈوبتا دیکھ کر مجھے پانی پانی کر گیا تھا۔ داغ دہلوی کبھی کبھی بے پناہ یاد آتے ہیں، آج بھی یادوں کی برسات جاری ہے۔ 
وفا کریں گے‘ نباہیں گے‘ بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ‘ یہ کلام کس کا تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں