پارلیمان کو عزت دو

''یہ پارلیمنٹ جعلی ہے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں۔ یہاں سب چور اور ڈاکو بیٹھے ہیں۔ یہ بے وقعت ہے۔ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ ربڑ سٹمپ پارلیمنٹ ہے۔ اس ایوان کو کہیں اور سے چلایا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں ارکان کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی دھمکیوں اور خوف کے سائے میں ہوتی ہے‘‘۔ یہ وہ طرح طرح کی بولیاں ہیں جو کوئی اور نہیں‘ ہماری پارلیمنٹ کے ممبرز اکثر بولتے رہتے ہیں۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو‘ پارلیمنٹ کو ایسے القابات سے نوازنا جمہوریت پسندوں کی ریت بن چکی ہے۔ جس کا کسی پر زور نہیں چلتا وہ پارلیمنٹ کو برا بھلا کہتا اور اس کے سپیکر کو مطعون کرتا ہے۔ یہ قابل افسوس وتیرہ صرف اپوزیشن کا نہیں بلکہ حکومت بھی اس سلسلے میں اپوزیشن سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کوئی روکنے والا نہیں، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ محسن نقوی یاد آتے ہیں ؎
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں کے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
کوئی بتائے کہ بنا پھول کے خوشبو کی کیا حیثیت؟ دریا کے بغیر کنارے کی کیا اوقات؟ باغ نہ ہو تو مالی کا کیا فائدہ؟ دیکھنے والی آنکھیں نہ ہوں تو کلوپیٹرا کے حسن میں کیا دلکشی؟ آپ خود فیصلہ کریں! بھلا کوئی اپنے گھر کی طرف بھی پتھر پھینکتا ہے؟ کوئی اپنی ماں کو بھی کوستا ہے؟ کوئی اپنے عیب بھی زمانے کو دکھاتا ہے؟ یقینا یہ بہت ''حوصلے‘‘ کی بات ہے۔ اتنی دیدہ دلیری اور بے باکی ہمارے رہنما ہی کر سکتے ہیں اور کسی میں اتنی ''ہمت‘‘ کہاں؟ جب بھی قومی اسمبلی کا ایوان سجتا ہے یا ہمارے معزز سینیٹرز قانون سازی کی نیت سے اکٹھے ہوتے ہیں تو پہلے دس منٹ میں ہی بھول جاتے ہیں کہ وہ یہاں کرنے کیا آئے تھے۔ الزام تراشی اور شور شرابہ عام ہو جاتا ہے۔ قانون سازی کے بجائے شخصیات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ایسے ایسے ذاتی حملے کیے جاتے ہیں کہ شرفاء کے کان لال ہو جاتے اور آنکھیں جھک جاتی ہیں۔ اپوزیشن ارکان بات کریں تو حکومتی بینچوں سے ''چور چور‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ وفاقی وزرا بولیں تو دوسری طرف سے کمان سے ''نااہلی‘‘ کے تبرے برسنے لگتے ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر بھی اس شور و غل کی وجہ سے ڈھنگ سے تقریر نہیں کر پاتے۔ کبھی اپوزیشن ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر بکھیر دیتی ہے تو کبھی حکومتی ارکان اپوزیشن کی ترامیم کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا احترام تو پیچھے رہ جاتا ہے‘ جس نے جو کہنا ہوتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ سپیکر کا بس چلتا ہے نہ ڈپٹی سپیکر کا۔ کوئی قانون‘ کوئی قاعدہ کسی کو روک نہیں پاتا۔
موجودہ پارلیمنٹ کی خوش قسمتی ہے یا بدبختی‘ یہ میں نہیں جانتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ کچھ ممبرز ایسے ہیں جو ایوان کے تقدس کو کبھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ مراد سعید وزیراعظم کے دفاع میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی قیاد ت پر شعلہ بیانی کرتے نہیں تھکتے تو دوسری طرف سے قادر پٹیل ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کبھی کسی خاتون کی کتاب اٹھا کر لے آتے ہیں تو کبھی بے جا الزامات کا پلندہ۔ علی زیدی، آغا رفیع اللہ، شہریار آفریدی، زرتاج گل اور فیصل جاوید شاید اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے بیان بازی کرتے ہیں ورنہ اتنا شور شرابا کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟ افسوس تو ان پر ہوتا ہے جو دہائیوں سے اس ایوان کا حصہ ہیں اور پھر بھی احتیاط کا دامن تھامے نہیں رکھ سکتے۔ شاہ محمود قریشی جیسا زیرک سیاستدان یا شاہد خاقان عباسی جیسا جہاں دیدہ رہنما‘ جب یہ اسمبلی میں کھڑے ہو کر تضحیک آمیز لہجہ اپناتے ہیں تو دکھ اور بڑھ جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے پوری اپوزیشن کو مودی کا یار کہا اور انڈیا کا ایجنٹ۔ شاہد خاقان نے سپیکر کے بارے جو الفاظ استعمال کیے وہ تو لکھے بھی نہیں جا سکتے۔ ایاز صادق نے جو بات کی‘ وہ دہرائی نہیں جا سکتی۔ کیا ضرور ت تھی اتنی لاپروائی کی؟ انسان اپنی سنیارٹی کا مان رکھ لیتا ہے۔ کیا تیس سال کا تجربہ بھی پارلیمنٹ کا احترام نہیں سکھا پاتا؟
یقین مانیں یہ تماشا صرف ہمارے ہاں ہی برداشت کیا جاتا ہے‘ ورنہ مہذب دنیا میں صرف اختلافِ رائے ہوتا ہے‘ دشنام طرازی نہیں۔ عوام دشمن پالیسیوں پر تنقید ہوتی ہے، مخالفین کی نجی زندگی پر رائے زنی نہیں۔ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہی ایسا ہے۔ مملکت کے لیے قانون جہاں بنتے ہیں‘ اس ادارے کا احترام سب پر لازم ہوتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر جدید دنیا تک‘ سبھی فیصلہ ساز محترم تھے‘ محترم ہیں۔ یونان کی پہلی Athenin Assembly ہو یا رومن سینیٹ، ایران کی Parthian Empire کی مھستان ہو یا مجلس ِ شوریٰ، برٹش پارلیمنٹ ہو یا امریکی کانگریس۔ کہیں بھی‘ کبھی بھی ایسی آزادی نہیں رہی۔ ممبر اپنی جان دے دیتے تھے مگر قانون ساز ادارے کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے‘ مبادا خود ہی اس کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں۔ جیسا کہ ہمارے پارلیمنٹیرین کرتے ہیں۔ امریکا ہو یا آسٹریلیا، برطانیہ ہو یا پاکستان‘ توہین پارلیمنٹ کا قانون تمام کامن ویلتھ ممالک میں موجود ہے۔
برطانیہ میں 5 دسمبر 2018ء کو تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کو توہین پارلیمنٹ کا نوٹس جاری ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ حکومت نے بریگزٹ معاہدے کی مکمل قانونی تجاویز پارلیمنٹ سے چھپائی تھیں، اس پر توہین پارلیمنٹ کی تحریک منظور ہوئی اور حکومت کو پارلیمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بہت سے حکومتی اراکین نے بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے اپنی حکومت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ مارچ 2020ء میں بھارتی لوک سبھا میں کانگرس کے سات ارکان نے سپیکر کی طر ف احتجاجاً کاغذ پھینکے تو سپیکر نے انہیں بدسلوکی کرنے پر پورے بجٹ سیشن کے لیے معطل کر دیا۔ یہی نہیں‘ 1977ء میں بھارت کی اس وقت کی وزیرا عظم اندرا گاندھی نے ایوان میں کھڑے ہوکر سرکاری اہلکاروں پرغلط الزامات لگائے تو سپیکر نے ان پر لوک سبھا میں داخلے پر پاپندی لگا دی تھی۔ آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں1955ء میں Browne- Ftizpatrick Privilege Case ہوا تھا جو بعد ازاں سب کے لیے مثال بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ آسٹریلین پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے اپنے دو ساتھیوں پر الزامات لگائے کہ یہ پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل نہیں ہیں، پھر جب وہ یہ الزامات ثابت نہ کر سکا تو اسے توہین پارلیمنٹ کے الزام میں90 دن کی قید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 
پاکستان میں آئین کی شق 66 کے تحت پارلیمنٹیرین کو بولنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایوان میں کہے ہوئے ان کے ایک ایک لفظ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ ہمارے ہاں کوئی بھی ریڈ لائن کاخیال نہیں رکھتا۔ بلاول بھٹو جب بولتے ہیں تو وزیراعظم کی توہین کرتے ہیں، خواجہ آصف جب کھڑے ہوتے ہیں تو وزیراعظم کو نشانہ بناتے ہیں۔ نہلے پر دہلا یہ کہ وزیراعظم صاحب بھی کبھی ان کا حساب چکانا نہیں بھولتے۔ سپیکر قومی اسمبلی پر روز الزامات کی بارش ہوتی ہے مگر وہ اپنے دفاع میں بھی قانون کااستعمال نہیں کر پاتے۔ پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ کو ڈپٹی سپیکر نے بدتمیزی کرنے پر ایوان سے نکالا تو کیا ہوا؟ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھے تھے۔
وہ بھی وقت تھا جب عمران خان کہا کرتے تھے ''پارلیمنٹ ایک عمارت کا نام ہے اور اس کی عزت پارلیمنٹیرینز کے کردار سے اوپر نیچے ہوتی ہے۔ پاکستانی پارلیمان کو اس کے ممبرز نے ہی اس نہج تک پہنچایا ہے‘‘۔ پوچھنا یہ تھا کہ گزشتہ ڈھائی سال سے پارلیمنٹ کو کون بے توقیر کر رہا ہے؟ اب تو حکومت آپ کی‘ اختیار آپ کا۔ خدارا! اب تو پارلیمان کو عزت دیں۔ اب تو یہاں عوام کے مسائل پر بحث کریں اورذاتی دکھڑے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیں۔ میرؔ کا ایک شعر ارکانِ پارلیمنٹ کی نذر ؎ 
دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوئے گلشن
پہنچے مبادا میرے خاشاکِ آشیاں تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں