پاکستان کو صرف ایک بچہ بدل سکتا ہے…(1)

یہ ایک لوک کہانی ہے‘ جسے 1837ء میں ڈنمارک کے ادیب ہینز کرسچن اینڈرسن نے لکھا تھا۔ اس کہانی میں دو دھوکے باز جولاہے بادشاہ کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہ جولاہے بادشاہ کو ایسا 'لطیف کپڑا ‘بُن کر دیتے ہیں جو صرف عقلمندوں کو نظر آتا ہے‘ بے وقوف اسے نہیں دیکھ سکتے۔ جب بادشاہ یہ کپڑا پہنتا ہے تو سارے درباری خاموش رہتے ہیں۔ بادشاہ کے ڈر سے کوئی نہیں کہتا کہ اس نے کپڑے نہیں پہن رکھے۔ سب وا ہ واہ کرتے ہیں اور بادشاہ کی خوش لباسی کے گیت گاتے ہیں۔ بادشاہ جب یہ 'پوشاک‘ زیب تن کرکے جلوس کی شکل میں باہر نکلتا ہے تو سب ایک بار پھر مدح سرائی اور کاسہ لیسی میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ کر بول اٹھتا ہے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ اس سے پورے مجمع کو زبان مل جاتی ہے اور ہر کوئی پکار تاہے ننگا ہے، ننگا ہے، بادشاہ ننگا ہے۔ لکھاری اس کہانی سے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اکثریت کو دھوکا دینا کتنا آسان ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی سچ کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں اور پھر انسان کو دن کی روشنی میں بھی صاف دکھائی نہیں دیتا۔
ڈنمارک میں تو یہ آج بھی لوک کہانی ہے مگر پاکستان میں یہ گزشتہ تہتر سالوں کا نوحہ ہے۔ جو حکومت بھی آئی اسے ورثے میں تگڑی معیشت ملی یا نہ ملی‘ جی حضوری کرنے والوں کی فو ج ضرور ملی۔ قائدا عظم اور لیاقت علی خان کے بعد سب سے زیادہ چاندی شاہ کے وفاداروں کی ہوئی۔ تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمدفالج کے مریض تھے‘ ان کا بلڈ پریشر ہر وقت ہائی رہتا تھا۔ چند قدم سے زیادہ وہ چل نہیں سکتے تھے اس لیے ہمیشہ وہیل چیئر استعمال کرتے۔ ان کے ہاتھوں میں رعشہ تھا اوروہ اپنے دستخط کے علاوہ کچھ لکھنے کے قابل نہ تھے۔ کھانا کھاتے تو بچوں کی طرح آدھا کھانا منہ سے باہر نکل آتا تھا۔ فالج نے ان کی زبان اور چہرے کو بھی متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس مفلوج اور معذور شخص نے ہر غیر آئینی اور غیر قانونی کام کیا مگر کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کو راہ ِ راست دکھاتا۔ گورنر جنرل نے خواجہ ناظم الدین کو وزارت ِ عظمیٰ سے برخاست کیا تو مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی سمیت کوئی بھی ان کے راستے کی دیوار نہ بنا بلکہ ان کی جی بھر کر ستائش کی۔ یہی نہیں‘ 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے ملک بھرمیں ایمرجنسی نافذ کر دی اور قانون ساز اسمبلی کو گھر بھیج دیا۔ ایوب خان کمانڈر انچیف کے ساتھ ملک کے وزیردفاع بن بیٹھے، اسکندر مرزا وزیر داخلہ کی کرسی پر بیٹھ گئے مگر کوئی نہیں تھا جو گورنر جنرل کو اتنا ہی کہہ سکتا کہ حضور! آپ بولتے ہیں تو بات کی سمجھ نہیں آتی۔ آپ کی معذوری سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہاہے۔
غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئے۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ''رنگین محفلوں‘‘ کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے 14 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو ون یونٹ کا درجہ دیا۔ جون 1958ء میں جنرل ایوب خان کو دوسال کے لیے برّی فوج کے کمانڈر انچیف کے طور پر توسیع دی گئی، اس کے بعد آئین منسوخ کردیا گیا اور ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ جب اسکندر مرزا آئین ختم کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہے تھے تو کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا۔ ان کے اس ایک اقدام سے پاکستان میں جمہوریت کی بے توقیر ی کا راستہ کھل گیا۔ ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا تھا مگر کابینہ کے ممبرز اور بیوروکریٹس انہیں خوش کرنے میں لگے رہے۔ پھر جنرل ایوب خان کا دور آیا۔ وہ سیاستدانوں کو کنڑو ل کرنے کے لیے دو قانون لے کر آئے؛ ایک ''پوڈو‘‘ اور دوسرا ''ایبڈو‘‘۔ ان قوانین کے تحت سینکڑوںسیاستدانوں پر مقدمات بنائے گئے۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیااور ان کا الیکشن چرایا گیا۔ صنعت کاروں کو بے جواز نواز ا گیا۔ ملک کو جنگ میں دھکیلاگیا، ریفرنڈم میں دھاندلی کرائی گئی اور نجانے کیا کیا کچھ مگر خوشامدی رفقا نے ہمیشہ واہ واہ ہی کی۔ کوئی نہیں تھا جو ان کی آمرانہ سوچ کو غلط کہہ سکتا۔ جنرل یحییٰ خان نے تو خیر ایسا ''کارنامہ‘‘ انجام دیا کہ ملک ہی توڑ دیا۔ جنرل یحییٰ اور سیاستدانوں کے مشترکہ مفادات اور ضد کی وجہ سے نوے ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ سب جی حضوری کرنے والے جی حضوری کرتے رہے‘ کسی نے حالات کو سدھارنے کی کوشش تک نہ کی۔
اقتدار کا ہما ذوالفقار علی بھٹو کے سر بیٹھا توجنرل یحییٰ کو گھر میں نظر بند کردیا گیا، بری فوج، بحریہ اور فضائیہ سے 44 افسران کو موٹا کہہ کر برخاست کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد آرمی چیف جنرل گل حسن کو بھی چلتا کیا۔ ایف ایس ایف کے ذریعے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کیا گیا، صحافت کا گلا گھونٹا اور صحافیوں کو پابند سلاسل رکھا گیا۔ صنعتوں کو حکومتی تحویل میں لے کر چلتی معیشت کا پہیہ روک دیا گیا۔ متفقہ آئین بننے کے بعد اپنی مرضی سے سات بار چھیڑ چھاڑ کی گئی اور سب سے بڑھ کر 1977 ء کے الیکشن میں کھلی دھاندلی کروائی گئی، اس دھاندلی کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی تو اسے طاقت کے زور پردبانے کی کوشش کی گئی۔ بڑے نامی گرامی سیاستدان اور بیوروکریٹس بھٹو کے ساتھ کام کرتے تھے مگر کسی کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ انہیں درست مشورہ دیتے۔ بھٹو صاحب اپنی مرضی کرتے رہے اوران کے ساتھی تالیاں بجاتے رہے۔ اسی شور میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ موصوف نے مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، نوے دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ توڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے لیے پھانسی کا انتظام کیا۔ امریکا کی خوشنودی کے لیے افغان وار کو گلے گلایا جس سے منشیات اور غیر قانونی اسلحہ پاکستان آیا۔ سوسائٹی میں عدم برداشت کی سرپرستی کی۔ آزادیٔ اظہارِ رائے کو تالا لگایا۔ محمد خان جونیجو کی حکومت کو غیرضروری طور پر ختم کیا مگر پھر بھی ساتھیو ں سے داد و تحسین ہی پائی۔ مجال ہے کسی نے ان کے سامنے سچ بولنے کی جرأت کی ہو۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار بھی ناکامیوں کی داستان ہیں؛ کرپشن کے نعرے بلند ہوتے رہے، بیرونی محاذ پر بھارت اور افغانستان کے معاملے پراور اندرونی سطح پر سندھ کے معاملے پر اداروں سے مخاصمت عروج پر رہی۔ یہی حال میاں نواز شریف کے تینوں ادوار کا تھا۔ عدلیہ اور فوج سے ان کی نہ بنی۔ جنرل آصف نواز ہوں یا جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب سے نواز شریف کی ٹھنی رہی۔ سیاسی مخالفین کو احتساب بیورو کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ امیرالمومنین بننے کی جستجو اور کارگل وار پر ان کاجذباتی ردعمل جمہوریت کے راستے کی دیوار بنا رہا۔ میاں صاحب اور بے نظیر بھٹو کے اردگردبھی سب تعریفو ں کے پُل باندھنے والے ہی تھے۔ چودھری نثاراورجاوید ہاشمی کے علاوہ کسی نے بھی انہیں اصل صورتِ حا ل سے آگاہ نہیں کیا۔ پھر جنرل پرویز مشرف نے ملک کی کمان سنبھالی۔ انہوں نے سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کروائیں، امریکا کی وار آن ٹیررکا حصہ بن کر دہشت گردی گھر لے آئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری پر الزامات لگا کر انہیں گھر بھیجا گیا، لال مسجد آپریشن ہوا، ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی، سیاست دانوں کو این آر او دیا گیا۔ پرویز مشرف کے تمام احباب غیر آئینی کاموں پر چھاجو ں داد دیتے رہے۔ آمرانہ دور کا خاتمہ ہوا تو عہد ِ آصف زرداری کی ابتدا ہوئی۔ وہ معزول ججز کو بحال کرنے کے وعدے سے مکر گئے، کراچی میں دہشت گردی نے عوام کا جینا حرام کردیا مگر وہ بانیٔ ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے۔ میمو گیٹ ہوا تو عدلیہ سے محاذآرائی شروع ہو گئی۔ لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو رہا، مہنگائی کا عذاب روز بروزبڑھتا رہا، حکومت غیر مقبول ہوتی رہی مگر مجال ہے کسی نے حکمرانوں کو روکا ہو۔ مجال ہے کسی نے خوشامد کی دکان بند کی ہو۔
وزیراعظم عمران خان کا دور تو سب ریکارڈ توڑ گیا۔ آج جو چیز سب سے زیادہ سستی ہے وہ خوشامد، مدح سرائی، چاپلوسی، پروپیگنڈا اور چرب زبانی ہے۔ وہ کیسے ؟... (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں