پیپلز پارٹی کی چار الجھنیں

زندگی بھی عجیب شے ہے،کبھی انسانوں کو اشکوں سے غسل دے کر نکھار دیتی ہے تو کبھی انہی اشکوں کے ذریعے اس کے ارمانوں کو بہا کرلے جاتی ہے۔ کبھی مقدس لبوں سے چومتی ہے اورکبھی اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیتی ہے۔ کبھی دل میں سرخ گلاب اُگاتی ہے توکبھی اس کے گرد کانٹوں کی باڑ لگا دیتی ہے۔ ایک چیز ہے جو زندگی سے بھی زیادہ عجیب اور بے اعتبار ہے‘ وہ ہے سیاست۔ سیاست کا ضمیر تو عبادت کے لبادے میں لپٹا ہوتا ہے مگر کردار... ؟ کردار ہمیشہ مفادات کا چوغہ اوڑھے شہر شہر، گلی گلی، نگر نگر گھومتا ہے۔ سیاست کا جیسا ماضی تھا ویسا ہی حال ہے۔ مفادات کا کھیل کل بھی مقبول تھا آج بھی ہے۔ پیپلزپارٹی جو پی ڈی ایم کی خالق تھی‘ آج راستہ بدلنے کے لیے عذر ڈھونڈ رہی ہے۔ سلیم کوثر یاد آتے ہیں ؎
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں‘ دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
پیپلز پارٹی کی چار الجھنیں ہیں جو اسے پی ڈی ایم کی قطار میں کھڑا ہونے دے رہی ہیں نہ اقتدار کے ایوانوں میں چین سے بیٹھنے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے اِن بے وقت کی الجھنوں نے پیپلزپارٹی کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ اندھیرا کس طرف ہے اور اجالا کس طرف؟ پیپلزپارٹی کے ہاں اضطراب ہے؛ مکمل اضطراب۔ سوچوں کا بوجھ ایک کندھے پر ہے اور فیصلہ سازی کا فقدان دوسرے کاندھے پر۔ آصف زرداری اکیلے ہوتے تو اور بات تھی اب بلاول بھٹوبھی ہیں۔ وہ ہر مسئلے پر الگ رائے رکھتے ہیں اور سابق صدر الگ،جس کے باعث پوری پارٹی عالم ِ تذبذب میں ہے، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کس کی سنیں اور کس کی اَن سنی کریں۔ پیپلزپارٹی ابہام اور غیر یقینی کی اندھیری گلی میں کسی ''مانوس جگنو‘‘ کی تلاش میں ہے۔ دیکھئے یہ تلاش کب ختم ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں۔
میری نظر میں پیپلزپارٹی والوں کی پہلی الجھن یہ ہے کہ وہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ مقتدرہ کے ساتھ لڑائی میں وہ کس حد تک جائیں؟ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے بیانیے کے ساتھ چلیں تو کب تک؟ راستہ بدلیں تو کیسے؟ زرداری صاحب چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی چلی جائے اور کسی ''بڑے‘‘ کی دل آ زاری بھی نہ ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور اب ان کی خواہش ہے کہ وعدہ وفا بھی ہو۔ آصف زرداری‘ ممکن ہے کہ اپنے لخت ِ جگر کو کئی بار سمجھاچکے ہوں کہ ''موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے‘ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، یہ اپنے بوجھ سے خود گر جائے گی۔ نون لیگ پہلے ہی اپنے بیانیے کی شد ت کی وجہ سے اقتدار کی ریس سے باہر ہے اس لیے پیپلزپارٹی کو انتظار کرنا چاہیے۔ اگلے الیکشن میں ہم وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے‘‘۔کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس میں بھی اس نکتے پر مفصل گفتگو ہوئی۔ زیادہ تر ممبر ز کا خیال تھا کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا مقتدرہ مخالف بیانیہ پیپلزپارٹی کے ''مشن اسلام آباد‘‘ کوخطرے میں ڈال سکتا ہے،اس لیے پارٹی کو '' ایک چپ‘ سو سکھ‘‘ کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ اب الجھن یہ ہے کہ پیپلزپارٹی تا دم ِ تحریر پہلی الجھن کے گرداب میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ وہ نتیجے پر نہیں پہنچ پارہی کہ گنگا نہائے یا جمنا؟ اسلام آباد کی آس لگائے یا کراچی کا قلعہ پکارکھے ؟ مقتدرہ سے دوستی کرے یا وہ بھی پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کی طرح تیر کمان سے باہر نکال لے؟ 
پیپلزپارٹی کی دوسری الجھن مولانا فضل الرحمن ہیں۔ وہ غالباً زیادہ دیر تک خود کو مولانا فضل الرحمن کے زیر سایہ رکھنا نہیں چاہتی۔ اسے اپنے ہی نظریاتی لوگوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ گھر کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کہاں پیپلزپارٹی کے لبرل نظریات اور کہا ں جے یو آئی کا مذہبی تشخص؟ کہاں ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین اور کہاں پی این اے رہنما مفتی محمود کے وارث ؟ کہاں مارشل لا کے نقاد اور کہاں مارشل لا کے محافظ ؟ پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ نہ بنیں اور اگر بن بھی جائیں تو صدارت مستقل نوعیت کی نہ ہو بلکہ روٹیشن کی پالیسی اختیار کی جائے مگرمسلم لیگ ن مولانا فضل الرحمن کو ہر حال میں صدر بنانا چاہتی تھی اس لیے پیپلزپارٹی کو کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔ اب صاف دکھائی دیتا ہے کہ جب بھی پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں اس کڑوے گھونٹ کی شدت بڑھتی ہے تو پیپلزپارٹی کے اکابرین منہ بسورلیتے ہیں۔ تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مولانا اور بلاول بھٹو کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ دیکھئے یہ کمند کہاں جا کرٹوٹتی ہے ؟ 
پیپلزپارٹی کی تیسری الجھن سندھ سرکارہے۔ اس وقت استعفوں کو لے کر پی پی پی میں دو گروپ بن چکے ہیں۔ سندھی گروپ کو مراد علی شاہ لیڈ کررہے ہیں تو دوسرے گروپ کو یوسف رضا گیلانی۔ سندھی گروپ کا کہنا ہے کہ ''پیپلزپارٹی سندھ حکومت چھوڑ کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی۔ ہمیں سندھ کے عوام نے بیچ منجدھار بھاگنے کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا۔ فرض کریں ہم سندھ حکومت کی قربانی دے بھی دیں تو کیا گارنٹی ہے کہ اگلے الیکشن میں ہم سندھ اور وفاق میں حکومت بنا پائیں گے؟ کیا پنجاب اور دوسرے صوبے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے؟‘‘ یہ ایک نقطہ نظر ہے جبکہ دوسرے گروپ کا ماننا ہے کہ ''پیپلزپارٹی سمٹ کر سندھ تک محدود ہوگئی ہے اگر ہم نے دوبارہ وفاقی جماعت بننا ہے تو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ پی ڈی ایم اور مسلم لیگ ن کی وجہ سے ہمیں سینٹرل پنجاب تک رسائی مل رہی ہے۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سندھ سرکار جاتی ہے تو جائے، ہمیں استعفوں کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ پی ڈی ایم سے راہیں جدا کیں توپیپلزپارٹی کی سیاسی موت ہوگی، ہمیں آج کا نہیں کل کے بارے میں سوچنا ہے‘‘۔آصف زرداری صاحب سندھی گروپ کے خیالات سے متاثر ہیں تو بلاول بھٹو دوسرے گروپ سے متفق۔ اب وقت بتائے گا کس کی چلتی ہے اور کون سرنڈر کرتا ہے؟ 
پیپلز پارٹی کی چوتھی الجھن اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ نہیں بلکہ دھرنا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کیلئے بلاول بھٹو بھی راضی نہیں۔ وہ پی ڈی ایم اجلاسوں میں متعدد بار کہہ چکے کہ ''پی پی پی دھرنا سیاست کی اعلانیہ مخالف ہے‘ اب یو ٹرن کیسے لے لے ؟ہمارے نزدیک طاہر القادری اور عمران خان کا دھرناغلط تھا تو پی ڈی ایم کا کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے ؟ ایک بار دھرنے سے حکومت چلی گئی تو یہ رِیت چل نکلے گی اور اگر یہ رِیت پڑ گئی تو پھر کوئی جمہوری حکومت مدت پوری نہیں کرسکے گی‘‘۔ پیپلز پارٹی کی یہ الجھن اس کے نظریات سے متصادم ہے۔ دیکھتے ہیں دھرنوں کے شوقین مولانا فضل الرحمن کی جیت ہوتی ہے یا بلاول بھٹو کی ؟ 
حضرت علیؓ کے عربی اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کریں: ''جو کوئی بھی موتی حاصل کرنا چاہتا ہے اسے تو سمندر میں غوطہ لگانا ہی پڑتا ہے۔ جو کوئی زندگی میں اونچا مقام پانا چاہتا ہے اسے تو راتوں کو جاگنا ہی پڑتا ہے۔ جو بلندی بھی چاہے اور محنت بھی نہ کرے، وہ اپنی عمر کو ضائع کر بیٹھتا ہے‘‘۔ یہ اشعار پیپلزپارٹی کی ساری الجھنیں دور کر سکتے ہیں۔ زرداری صاحب اور بلاول کی سوچ کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔ اب فیصلہ پیپلزپارٹی نے کرنا ہے کہ انہوں نے اپنی حکومت بچانی ہے یا سیاست ؟ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جب انہیں تذبذب کی چادر اتارنی ہے، جب انہیں جنگ اور محبت میں سے ایک چیز کو چننا ہے۔ حفیظ جالندھری کا شعر پیپلز پارٹی کی نذر، انہیں اب اس شعر کی نفی کرناہے ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں