لاہور کو نظر لگ گئی!

روایت ہے کہ رسالت مآبﷺ نے نبوت ملنے کے بعد بنو ہاشم سے پہلے خطاب میں فرمایا تھا ''قافلے کا رہنما کبھی قافلے کو دھوکا نہیں دیا کرتا‘‘۔کاش! ہمارے حکمران اتنی سی بات سمجھ سکتے۔ تہتر سالوں سے عوام کے حصے میں دھوکا ہی دھوکا ہے، لارے ہی لارے ہیں اوربے عملی ہی بے عملی ہے۔نجانے سیاستدانوں کی ''منشور‘‘کی دیگ ہمیشہ پھیکی کیوں نکلتی ہے؟بدمزہ اور باسی بھی!موجودہ حکومت سے ملک تو کجا، صوبہ تو دور، لاہور ہی نہیں سنبھالا گیا۔ آہ! میرے لاہور کو نظر لگ گئی۔
التجائیں کر کے مانگی تھی محبت کی کسک
بے دلی نے یوں غمِ نایاب واپس کر دیا
عوام کو کتنی امیدیں تھیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آئے گی تو ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ کرپشن ختم ہوجائے گی اور نااہلی کو پابند سلاسل کردیا جائے گا مگر سب کچھ الٹا ہوگیا۔ ملک کی کہانی پھر کبھی‘ آج صرف ایک شہر کا رونا رو تے ہیں۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ لاہور پنجاب ہی نہیں پورے پاکستان کا چہرہ ہے، ثقافتی چہرہ، سیاسی چہرہ اور سب سے بڑھ کر تاریخی چہرہ۔ مگر افسوس! یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہمارے حکمران جان بوجھ کر اس چہرے کو گنداکررہے ہیں۔ آ پ مجھے پوری دنیا میں ایک شخص دکھا دیں جو اپنے چہرے کو گندا رکھنا چاہتا ہو؟یہ عمل انسانی فطرت کے خلاف ہے، شعور کی نفی ہے اور بالغ نظری کا انکار۔ آپ آج لاہور میں جہاں مرضی چلے جائیں، ہر گلی، ہرچوراہے میں کوڑے کے ڈھیر ملیں گے، خستہ حال سٹرکیں استقبال کریں گی، پلوں کے نیچے پڑی منوں مٹی آپ کا منہ چڑائے گی، پھول مرجھائے نظر آئیں گے، درخت جھکے ہوئے اور فضا بدبودار۔ کیا ایسا تھا لاہور؟ کیا اسی لاہور سے رنجیت سنگھ کو عشق تھا؟ کیایہ لاہور جلال الدین اکبر کی محبوبہ کہلاتا تھا؟ کیا جہانگیر اور نور جہاں اِنہی گند سے اٹی گلیوں کے دیوانے تھے؟ کیا محمود غزنوی اور ایاز کے درمیان مالک اور غلام کا فرق اسی لاہور نے مٹایا تھا؟ کیا اقبالؔ، فیضؔ، ناصرؔ کاظمی اور انتظار حسین اِسی لاہور کو دیکھ کر جیتے تھے؟
لاہور کی بدحالی پر نظر نہ جاتی اگر گزشتہ ایک ماہ سے صوبائی دارالحکومت کوڑے کا شہر نہ بنا ہوتا۔ یقین مانیں! پہلی بار باغات کے شہر میں وہ منظر دیکھے جو اس سے قبل کراچی میں ہی نظر آتے تھے۔یوں لگا جیسے لاہورا ور کراچی کافرق ختم ہو گیا ہو۔ لبرٹی مارکیٹ کی صورت میں کراچی کا صدر بازارنظر آیا، لاہور کا ملتان روڈشارع فیصل کی ماننددکھائی دیا۔ انار کلی بازار نے طارق روڑ کا روپ دھارا۔ اتنا کوڑا؟ اتنی بدانتظامی؟ اتنی بدبو؟ حیرت یہ ہے کہ اتنی عجلت کی ضرورت کیا تھی؟ اگرحکومت کے پاس شہر کو صاف کرنے کا متبادل نظام موجود نہیں تھا تو ترک کمپنی کو ایکسٹینشن کیوں نہ دی گئی؟ اور اگر کمپنی کے اخراجات سرکار کی برداشت سے باہر تھے تو اڑھائی سال سے بلدیات کا محکمہ کیاکررہا تھا؟ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی صلاحیت میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟ روزانہ پانچ سے چھ ہزار ٹن کوڑا پیدا کرنے والے شہر کو بے آسرا کیوں چھوڑ دیا گیا؟ سواکروڑ لوگوں کی زندگیوں کا خیال حکومت کو کیوں نہ آیا؟ جب دھیرے دھیرے پورا شہر روڑی میں بدل رہا تھا تو تب حکومت کس سوچ میں مگن تھی؟بروقت اقدامات کیوں نہ کیے گئے؟اب حکومت شہر سے کوڑا اٹھائے جانے کا دعویٰ کررہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟ شہر کو وقتی نہیں‘ مستقل علاج کی ضرورت ہے۔ کیا پنجاب حکومت کے پاس اس مسئلے کا کوئی مستقل حل ہے؟ 
ذرا ٹھہر کر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو معلوم ہوگا کہ یہ نوبت ایک دن میں نہیں آئی۔ پلوں کے نیچے سے پانی گزرنے میں ڈھائی سال لگے۔ 2018ء میں پنجاب حکومت بدلی تو لاہور کی ترقی الٹے قدموں چلنے لگی اور یہ اس لیے ہوا کہ حکمران جماعت اپنی انتخابی مہم میں لاہور کے بجٹ کو کھلم کھلا تنقید کا نشانہ بناتی تھی۔ سرکار بدلتے ہی ترجیحات بھی تبدیل ہو گئیں۔ لاہور پر پیسہ لگنا بند ہوگیا۔ نئے پروجیکٹ تو کیا شروع ہوتے‘ جومنصوبے چل رہے تھے وہ بھی کٹوتی کی چھری کی زد میں آگئے۔ایک بار پھر لاہور کا موازنہ چھوٹے اضلاع کے ساتھ ہونے لگا۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ لاہور سے صرف ٹیکس کی مد میں دو سو ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوتے ہیں جبکہ چھوٹے اضلاع سے محض چند کروڑ۔ لاہور سوا کروڑ آبادی کا شہر ہے اور چھوٹے اضلاع کی آبادی لگ بھگ پانچ‘ پانچ لاکھ۔ آپ خود فیصلہ کریں کیا کوئی موازنہ بنتا ہے؟ اگر لاہور کی سالانہ ٹیکس آمدنی سے ایک چوتھائی بھی شہر پر خرچ ہو تویہ بجٹ بھی پچاس ارب روپے بنتا ہے مگر یہ بھی نہ ہو سکا۔پیسے بچانے کے چکر میں حکومت نے صفائی کا سارا نظام درہم برہم کر دیا۔ کیا حکومت بتائے گی کہ لاہور کو اس کے جائز حق سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ کیا اس شہر کے باسی انسان نہیں ہیں؟آپ سارے شہروں پر پیسہ لگائیں مگر خدارا! اپنے تاریخی چہرے کو مسخ مت کریں۔
یا د رکھیے! بڑے شہر جذبات سے نہیں چلتے، ہوش مندی کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ جو شہر ملکوں کے اور صوبوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں ان پرزیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ وہ مزید پُرکشش ہوسکیں۔بڑے شہروں کو کبھی گندا نہیں رکھاجاتا۔ یہی پوری دنیا کی رِیت ہے۔لندن، نیویارک، پیرس، ممبئی اور استنبول کو چھوڑیں‘ آپ کینیڈاکے صنعتی شہر کلگرے (Calgary) میں صفائی کا نظام دیکھ لیں۔ آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ Mercer Global Financial List کے مطابق یہ دنیا کا سب سے صاف شفاف شہر ہے۔ کلگرے کینیڈا کا آئل کیپٹل ہے اور یہاں جا بجا فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود اتنی صفائی ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک اس شہر کے صفائی ماڈل کوفالو کرتے ہیں۔ یہ کمال اس لیے ہوا کہ 2007 ء میں کینیڈاکی حکومت نے Too Good to Waste کے نام سے ایک مہم شروع کی جس کے تحت نہ صرف گلیوں اور سٹرکوں کو صاف رکھا جاتا ہے بلکہ ایئر کوالٹی پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ گزشتہ چودہ برسوں سے اس شہر کے باسی ہر سال اپریل سے جون تک Spring Clean-up فیسٹیول مناتے ہیں اور اپنے گھروں کے ساتھ گلیوں اور سڑکوں کو بھی مکمل صاف کرتے ہیں۔یہ شہر اب دنیا بھر کے لیے ایک مثال بن چکا ہے۔ کاش! پنجاب حکومت بھی کچھ ایسا سوچ سکتی۔
کینیڈا نہیں تو انڈونیشیا کو دیکھ لیں‘ جہاں حکومت نے صحت کی سہولتوں کو صفائی کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔ جو علاقہ جتنا صاف ہوتا ہے اس کو اتنی زیادہ اور بہتر صحت کی سہولتیں دی جاتی ہیں۔وہ لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں وہ فارغ اوقات میں شہر وں کا کچرا اکٹھا کرکے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مفت علاج کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے بعد شہروں میں صفائی کا مسئلہ بھی سر نہیں اٹھاتا اور لوگوں کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔انگلینڈ کا شہر لیڈز (Leeds) بھی صفائی میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کے صفائی کے نظام کو On-Street Waste Management Service کہا جاتا ہے۔ہر گلی کی صفائی ستھرائی کے لیے الگ ٹیمیں ہیں جو کبھی شہر کو گندا نہیں ہونے دیتیں۔ یہی نہیں‘ شہر بھر میں 186 مقامات پر ری سائیکلنگ یونٹس لگائے گئے ہیں جہاں شہریوں سے کوڑا خرید ا جاتا ہے اورنئی نئی ایجادات کی جاتی ہیں۔ جرمنی اور سویڈن میں کچرے سے سب سے زیادہ بجلی بنائی جاتی ہے۔ سویڈن میں 8لاکھ 10ہزار گھرکچرے سے بننے والی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف ایک فیصد کچرے کو تلف کیا جاتا ہے۔ 
امیر تیمور نے دلّی میں قتل وغارت سے پہلے لاہور کو فتح کیا تھا۔ اس ظالم حکمران نے لاہور کو لوٹا ضرور مگر برباد نہیں کیا۔ لاہور ہمیشہ سے حکمرانوں کا محبوب رہاہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ موجودہ حکومت بھی اس سے پیار کرے ورنہ یہاں کے باسیوں کو لگے گا کہ لاہور کو نظر لگ گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں