ناکام لوگ زندگی کیسے جیتے ہیں؟

ہم کبھی اپنے بچوں کو نہیں بتاتے کہ ''شجرِ ممنوع‘‘ کیا ہے؟ پہاڑ کے دلکش منظر کے پیچھے کتنی گہری کھائی ہے؟ مسکراہٹ اور درد کا کتنا قدیم ساتھ ہے؟ آنکھوں کی چمک کی اوٹ میں آنسو بھی بستے ہیں اور پھولوں کی شاخ پرکانٹے بھی اُگتے ہیں۔ 
میرے پاس سنانے کے لیے تین سچی کہانیاں ہیں اور ان تینوں کہانیوں کا سبق ایک ہی ہے۔ برداشت، برداشت اور صرف برداشت۔ ملتان کی شازیہ ماں باپ کی لاڈلی تھی، شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی‘ اس کے سبھی ناز نخرے اٹھائے جاتے تھے۔ بھائی اسے ملکہ کہتے اور دادی شہزادی کہہ کر پکارتی۔ سسرال گئی تو وہاں بھی جلد ہی دلوں پر راج کرنے لگی۔ خاوند کیا، ساس کیا، سسر کیا‘ سب اس کے گرویدہ تھے۔ شازیہ کو اللہ نے ایک ایک کر کے چار بیٹیوں سے نوازا۔ خاوند کو بیٹا چاہیے تھا سو اس نے دوسری شادی کر لی۔ شازیہ کو اتنا صدمہ ہوا کہ اس نے ایک ہفتہ بھوکا رہنے کے بعد خودکشی کر لی اور یوں شازیہ کی زندگی کی کہانی ختم ہو گئی۔
اب دیکھتے ہیں سکھر کے رہائشی حمزہ کے ساتھ کیا ہوا۔ حمزہ کے تین بھائی اور بھی تھے‘ دو وکیل اور ایک بینکر۔ حمزہ کو بھی وکالت کا جنون تھا مگر اس کے والد نے مقابلے کے امتحان کی خواہش کر دی۔ وہ باپ کو انکار نہ کر سکا اور ایل ایل بی کے بعد سی ایس ایس کی تیاری میں مگن ہو گیا۔ حمزہ نے تین بار مقابلے کا امتحان دیا مگر قسمت کی نائو پار نہ لگ سکی۔ حمزہ کے والد نے مایوس ہو کر بیٹے کو تھوڑا ڈانٹ دیا۔ اس ڈانٹ کے نشتر سیدھے دل پر لگے اور حمزہ گھر کی چھت سے کود گیا۔ اسے کافی چوٹیں آئیں مگر جان بچ گئی۔
اب آتے ہیں تیسری کہانی کی طرف! اس کہانی کا مرکزی کردار وسیم ہے۔ یہ پشاور میں سرکاری ملازم ہے۔ آفس دیر سے جانا اس کی زندگی کا مقصدِ اول ہے اور دفتر جا کر کام نہ کرنا مقصدِ دوم۔ شاطر اتنا کہ سالوں کی ملازمت میں چند دنوں کا کام ہی موصوف نے کیا ہو گا۔ چور کی ایک دن پکڑ ضرور ہوتی ہے۔ کام نہ کرنے پر محکمہ کے سیکرٹری نے خوب سرزنش کی۔ وسیم غصے سے لال پیلا ہو کر دفتر سے چلا گیا اور گھر جا کر سارا غصہ بیوی پر نکال دیا۔ مار پیٹ کی اور طلاق دے کر چلتا کیا۔
یہ محض تین کہانیاں نہیں بلکہ سماج کا روگ ہیں۔ ایسا روگ جو صبح شام پروان چڑھتا ہے، ایسا روگ جو ہمیشہ چوکھٹ کا پتھر بن کر رہتا ہے۔ ہم نجانے کیوں اپنے بچوں کو تصویر کا ایک رخ دکھاتے ہیں اور دوسرے رخ کو اوجھل رکھتے ہیں۔ انہیں خوش رہنے کی تلقین کرتے ہیں مگر کبھی غم کا سامنا کرنے کا ہنر نہیں سکھاتے۔ ان کے لیے کامیابی کی دعا کرتے ہیں مگر ناکامی کا ذکر چھیڑنے سے گھبراتے ہیں۔ اچھے کاموں کو کھل کر بیان کرتے ہیں مگر برے کاموں پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں مگر قدم قدم پر آنے والے چیلنجز بارے آگاہی نہیں دیتے۔ ''کام میں عظمت ہے‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگر کام چوری کے نقصانات بارے تنبیہ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر، انجینئر اور سول سرونٹ بننے کا بھوت اُن پر سوار کر دیتے ہیں مگر ان کی خواہشات کی دھڑکن نہیںسنتے۔ ہم بچوں کو بتاتے ہیں زندگی بہار کے رنگوں کی مانند ہے مگر یہ نہیں بتاتے ہمارے ایام خزاں رسیدہ پتوں کی طرح فنا پذیر ہیں۔ جب وقت فنا کا جام پی لیتا ہے توہر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ ہم ہر دم، ہر طرف امید کے ادھورے دیے جلاتے ہیں، کبھی اپنی آئندہ نسلوں کو نہیں بتاتے کہ امید، صنوبر کی شاخوں کی طرح شاخ در شاخ پھوٹتی ہے۔ ایک شاخ کے ٹوٹ جانے سے باقی شاخیں اپنا وجود نہیں کھو دیتیں بلکہ ٹوٹی ہوئی شاخوں کو پوری قوت اور اپنائیت سے سینچتی ہے اور وہاں دیکھتے ہی دیکھتے ایک نئی کونپل پھوٹ جاتی ہے۔
سحر کو تو آنا ہے آ کر رہے گی
کٹے کیسے لیکن یہ شب‘ کون جانے
ستاروں سے آگے بہت کچھ ہے مانا
زمیں پر بھی جینے کے ہوں کچھ بہانے
آپ اپنا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، سکولوں کے نصاب پر نظر دوڑا لیں، ایک نہیں ہزاروں والدین کا انٹرویو کر لیں، آپ کو بچوں کی تربیت میں توازن نہیں ملے گا۔ جب تربیت میں توازن کا فقدان ہو گا تو بچے کی شخصیت کیسے نکھر سکتی ہے؟ وہ سچ اور جھوٹ کا فرق کیسے جان سکتا ہے؟ وہ خوابوں کی دنیا میں عملیت کا تڑکا کیسے لگا سکتا ہے؟ سارے والدین جان لیں! یہ بچپن کی تربیت ہی ہوتی ہے جو بچے بڑے ہو کر من مانی کرنے لگتے ہیں۔ ماں باپ کو پانی کا بلبلا سمجھنے لگتے ہیں۔ مجھے چند سال قبل لاہور کے ایک فاؤنٹین ہائوس جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر ز نے چند مریضوں سے ملوایا۔ وہ سب زندگی سے مایوس تھے اور پریشان رہنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔ سینئر ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ مریض وہ ہیں جو ناکامیوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ جو عدم برداشت کے ساتھی ہیں اور غصے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ماں پاپ کے لاڈ نے ان کو بگاڑ دیا۔ انہوں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو یہ نہیں جانتے تھے کہ بادِ مخالف کیا ہوتی ہے اور ان گرم ہوائوں کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟ ان کو معلوم نہیں تھا کہ ہر جگہ غصہ نہیں کیا جاتا، ہر جگہ چیخ و پکار سے کام نہیں چلتا اور ہمیشہ آپ کو عزت نہیں ملتی۔ہمارے رائٹرز کو ان موضوعات پر لکھنے کا شوق ہے نہ ضرورت۔ جو والدین اپنے بچوں کو صحیح معنوں میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ معروف پروفیسر Randy Pausch کی ایوارڈ یافتہ کتاب The Last Lecture کا مطالعہ ضرور کریں۔ پروفیسر لکھتے ہیں کہ میں خود کو ہمیشہ پریشانیوں اور برے وقت کے لیے تیار رکھتا ہوں، میری سوچ منفی نہیں ہے مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہر طرح کی صورت حال میرے ذہن میں ہوتی ہے۔ وہ مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر مجھے بھیڑیا بھی کھا جائے تو اس کے بعد مجھے کیا کرنا ہے‘ وہ پلان بھی میرے پاس ہوتا ہے۔ میں کبھی خود کو مشکل وقت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ یہی نہیں! آپ 2006ء میں بننے والی Will Smith کی شہرہ آفاق فلم The Pursuit Happyness بھی ضرور دیکھیں۔ وہ اپنے بچے کو تلقین کرتا ہے کہ زندگی میں آگے بڑھنے کی تیاری یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس دولت کتنی ہے؟ بنگلا، گاڑی اور کاروبار کیسا ہے؟ کامیابی کی تیاری یہ ہے کہ آپ زندگی میں آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ وِل سمتھ کبھی اپنے بیٹے کو خوش رہنے کی دعا نہیں دیتا بلکہ خوشی کے بعد جو غم آتاہے اس کو برداشت کرنے کی تیاری کرواتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ برا وقت زندگی کاحصہ ہوتا ہے‘ اصل امتحان اس کو گزارنے کا فن ہے۔ یہ ہنر جو سیکھ لیتا ہے وہ کبھی نامراد نہیں ٹھہرتا، خوشی کبھی اس کا دامن نہیں چھوڑتی۔
خدارا! اپنے بچوں کو فریب اور دھوکے کی دنیا سے آزاد رکھیں۔ انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں بارے ضرور بتائیں۔ جھوٹ کی چھائوں میں بٹھانے سے بہتر ہے انہیں سچ کی دھوپ میں کھڑا کر دیں۔ اگر شازیہ کے والدین نے اُسے غموں سے روشناس کروایا ہوتا تو آج اُن کے حصے میں صرف پچھتاوہ نہ ہوتا۔ اگر حمزہ کے ماں باپ نے اُسے مایوسی کے ساتھ لڑنا سکھایا ہوتا تو وہ کبھی چھت سے نہ کودتا۔ اگر وسیم کے والدین نے اُسے غصے کے شر سے بچایا ہوتا تو اس کی بیوی اپنے بچوں کو پالنے کے لیے در در کی ٹھوکریں نہ کھا رہی ہوتی۔ یہ سارے کام والدین نہایت آسانی سے کر سکتے ہیں مگر اس سے پہلے انہیں احساسِ کمتری کی چادر اتارنا ہو گی۔ انہیں ہر لمحے یاد رکھنا ہو گا کہ سارے بچے بیورو کریٹ نہیں بن سکتے، سارے ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل بھی نہیں بنتے۔ کچھ بچے ناکامی کی سیڑھی بھی چڑھ جاتے ہیں۔ بس والدین انہیں اتنا سکھا دیں کہ ناکام لوگ زندگی کیسے جیتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں