حکومت، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم

میر انیسؔ زندہ ہوتے تو شاید پی ڈی ایم کے احساسِ زیاں کا نوحہ لکھتے۔ اگر میر تقی میرؔ ہوتے تو مولانا فضل الرحمن کے ارمانوں کا درد بیان کرتے۔ غالبؔ حیات ہوتے تو میاں نواز شریف کی حسرتوں پر پڑی اوس کو آنسوؤں سے تشبیہ دیتے اور اگر علامہ اقبال آج کے دور میں ''شکوہ‘‘ لکھتے تو آصف علی زرداری کی ''سیاست‘‘ کا تذکرہ ضرور کرتے۔ پی ڈی ایم دس گھروں کی ہنڈیا تھی۔ بیچ چوراہے پھوٹنا اس کا مقدر تھا۔ جو کام کل ہونا تھا‘ وہ پیپلز پارٹی نے آج ہی کر دیا۔ ازل کے رقیب بھلا کب ایک تھالی میں کھا سکتے ہیں۔
نہ پوچھو مجھ سے لذتِ خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کے پھونک ڈالے ہیں
آصف علی زرداری نے جو کیا‘ ٹھیک کیا۔ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ سندھ کے عوام نے انہیں ووٹ استعفے دینے کے لیے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے دیے تھے۔ عوام کو بیچ منجدھار چھوڑنا ہوش مندی ہے نہ سیاست کا تقاضا۔ حکمران سایہ دیتے ہیں‘ دھوپ نہیں۔ خوشیاں بانٹتے ہیں‘ غم نہیں۔ آسانیاں مہیا کرتے ہیں‘ مشکلات نہیں۔ مگر کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات پیپلز پارٹی نے دینے ہیں۔ اگر مقاصد کے حصول کے بغیر پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرنا تھیں تو یہ اتحاد بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر آپ سندھ سرکار کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں تھے تو وفاقی اور پنجاب حکومت گرانے کے خواب کیوں دیکھتے رہے؟ اگر نواز شریف کی واپسی پر ہی اسمبلیوں سے استعفے دینے تھے تو پی ڈی ایم کے ایکشن پلان میں استعفوں کی شق کیوں قبول کی؟ آپ کی سی ای سی نے استعفوں کے فیصلے کی توثیق کیو ں کی؟ اگر مولانا فضل الرحمن کی قیادت پر آپ کی جماعت میں اختلافات تھے تو اتنا عرصہ ساتھ بیٹھنے کا جواز کیا تھا؟ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اپنی جماعت سے لانا تھا تو یوسف رضا گیلانی کے الیکشن سے پہلے نون لیگ سے وعدہ کیوں کیا تھا؟
حالات کروٹ لے چکے۔ اب یوں لگتا ہے پی ڈی ایم کو پیپلز پارٹی کے بغیر ہی رختِ سفر باندھنا ہے۔ اس غیر فطری اتحاد سے نقصان صرف اور صرف میاں نواز شریف کا ہوا یا مولانا فضل الرحمن کا۔ پیپلز پارٹی کا تو فائدہ ہی فائدہ ہوا۔ سندھ میں بھی اور باقی صوبوں میں بھی۔ کوئی زرداری صاحب سے پوچھے کہ کیا یہ سب مکمل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے یا حالات نے پیپلز پارٹی کو چودھویں کا چاند بنا دیا۔ مجھے یقین ہے وہ مناسب جواب نہیں پائیں گے اور بات کا رخ کہیں سے کہیں موڑ دیں گے۔ پی ڈی ایم کی کہانی کا آغاز اس وقت ہو ا جب میاں نواز شریف علاج کی غرض سے بیرونِ ملک گئے۔میری نظر میں اس غیر متوقع صورتحال سے پاکستان میں دو لوگ سب سے زیادہ پریشان تھے۔ ایک حکومت کے سربراہ اور دوسرے زرداری صاحب۔ اس وقت حالات جس طرح مسلم لیگ (ن) کو فیور کر رہے تھے اس سے صاف نظر آ رہا تھا کہ شہباز شریف اور مقتدر حلقے ایک پیج بلکہ ایک سطر پر آ چکے ہیں۔ مریم نواز نے چپ کاروزہ رکھ لیا تھا اور بڑے میاں صاحب بھی خامو ش تھے۔ اِس سے پہلے کہ کوئی انہونی ہوتی‘ وزیراعظم عمران خان متحرک ہوگئے اور زرداری صاحب نے بھی صف بندی شروع کر دی۔ انہوں نے سب سے پہلے ضمانت کی درخواست دی اور جیل سے باہر آ گئے۔ رہائی ملتے ہی زرداری صاحب نے اپنے دیرینہ دوستوں کو بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے میں مدد دینے کا معاملہ یاد دلایا اور نئے موسم کی پوشاک زیبِ تن کرنے کی یقین دہانی بھی کروا دی۔ اُدھر وزیراعظم صاحب نے بھی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ ''معاہدے‘‘ کی مکمل پاسداری نہ ہو سکے۔ شہباز شریف نے اپنے تئیں پوری کوشش کی مگر مریم نواز باہر نہ جا سکیں۔ یوں میاں نواز شریف کے تیور بدلنے لگے مگر شہباز شریف نے اپنی والدہ کے ذریعے انہیں بولنے سے روکے رکھا۔
دوسری طرف‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زرداری صاحب ذاتی علاج کے ساتھ ساتھ سیاسی علاج کی بھی تدبیریں سوچنے لگے۔ وہ اپوزیشن کا ایسا اتحاد بنانا چاہتے تھے جس میں کندھے تو دوسری پارٹیوں کے ہوں مگر نفع پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے۔ پہلے پہل شہبا ز شریف نے پیپلز پارٹی کے اکابرین کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی مگر یہ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کی میزبانی میں وجود میں آ گئی اور آصف زرداری کی لائن نواز شریف اور غیر سیاسی قوتوں سے سیدھی ہو گئی۔ اب ایک طرف حکومت نواز شریف پر طعنوں کے نشتر چلا رہی تھی اور دوسری طرف آصف زرداری نواز شریف کو '' مردِ آہن‘‘ بننے کے سنہری اصول یاد کروا رہے تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ''بڑوں‘‘ سے لڑائی پنجابی سیاستدان ہی کر سکتا ہے‘ سندھی نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ شہباز شریف کو نیب کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ یوں مریم نواز کو لندن بھیجنے کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔ نواز شریف وعدہ وفا نہ ہونے پر طیش میں آ گئے۔ انہوں نے پی ڈی ایم اور پارٹی اجلاسوں میں دل کا غبار نکالنا شروع کر دیا۔ میاں نواز شریف کے دیکھا دیکھی مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے بھی تیروں کے رخ موڑ دیے اور حکومت کے ساتھ ساتھ کچھ اور حلقوں کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ رہی سہی کسر میاں صاحب نے گوجرانوالہ کے جلسے میں پوری کر دی۔اب حکومت اور زرداری صاحب شاد تھے کیونکہ اُن کی کوششیں رنگ لا چکی تھیں۔ نالاں تھے تو مخصوص حلقے، وہ بھی مسلم لیگ (ن) سے۔ دونوں کی راہیں ایک بار پھر جد ا ہوگئی تھیں۔
پی ڈی ایم ایک کے بعد دوسرا جلسہ کرتی رہی۔ مریم نواز اور مولانا صاحب بڑھ چڑھ کر بولتے رہے۔ بلاول بھٹو بھی حکومت پر حسبِ توفیق تبرا کرتے مگر کبھی کھل کر سامنے نہ آتے۔ حکومت خود چاہتی تھی کہ مریم نواز بولتی رہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا جب تک مریم کی زبان تلخ ہے اداروں کی ناراضی ختم نہیں ہو گی۔ اسی لیے مریم نوازکو گرفتار کیا گیا نہ زباں بندی کی گئی۔ 13 دسمبر 2020ء کو‘ لاہور جلسے میں جانے سے پہلے ایاز صادق کے گھر مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی ہوئی۔ بلاول میٹنگ چھوڑ کر جانے لگے تو مسلم لیگ (ن) کے دیگر لیڈران نے معاملہ رفع دفع کروایا مگر اصل تلخی وہیں کی وہیں رہی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے بعد پیپلز پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس ہوا تو اسمبلیوں سے استعفوں پر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر پی ڈی ایم ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے مگر ہمیں سندھ سرکار اور نیشنل اسمبلی سے استعفے نہیں دینے چاہئیں۔ جب سی ای سی کے ممبرز پی ڈی ایم سے نکلنے کا فیصلہ کر رہے تھے تو زرداری صاحب نے نئی تجویز پیش کر دی۔بعض خبروں اور کچھ اندرونی ذرائع کے مطابق ان کا موقف تھا کہ اگر پی ڈی ایم کو خدا حافظ کہنا ہے تو سینیٹ الیکشن کے بعد کیونکہ اس طرح سینیٹ میں پیپلز پارٹی کو دو سے تین سیٹیں زیادہ مل سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ چیئرمین سینیٹ بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ اس کے بعد پی ڈی ایم میں وہی ہوگا جو پی پی چاہے گی۔ پیپلز پارٹی کے لیے نئی سے نئی راہیں کھل جائیں گی۔ (ق) لیگ چونکہ پیپلز پارٹی کی اتحادی رہی ہے‘ اگر پی ڈی ایم کا کندھا استعمال کرکے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی گدی پر بیٹھا دیاجائے تو وفاقی حکومت خود بخود مفلوج ہو جائے گی اور وزیراعظم خود ہی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے ورنہ عدمِ اعتماد کا راستہ تو کبھی بند نہیں ہوتا۔اگر پیپلز پارٹی خان صاحب کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہوگئی تو اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کبھی اپنا وزیراعظم نہیں لائے گی۔ شہباز شریف کو تو ہر گز نہیں۔ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے۔ یہ سنتے ہی اجلاس میں خاموشی اور بڑھ گئی۔ سب ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں