نئے پاکستان میں کچھ نیا نہیں

الفاظ کی جادوگری ایک چیز ہے اور حقیقت کی تلخی دوسری۔ سچ کی کڑواہٹ الگ ہوتی ہے اور جھوٹ کی مٹھاس الگ ۔کوئی فسوں گر ہی ان دو متضاد چیزوں کو ایک قالب میں سمو سکتا ہے ورنہ کون ہے جوایسا کرنے پردسترس رکھتا ہو ۔ کیا کوئی سیاستدان فسوں ساز ہو سکتا ہے ؟ کیا کوئی حکمران عوام کے غم ِ لازوال کو دنوں میں ختم کر سکتا ہے ؟کیا کوئی صاحب ِاقتدار سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ دکھانے پر قدرت رکھتا ہے ؟ یہ ایسی کاریگری ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔یہ ایسی کرشمہ سازی ہے جس کا ہنر قسمت والوں کو آتا ہے۔میر تقی میر یاد آتے ہیں ۔
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباسِ سوگواراں
قوم کو مبارک ہو ‘ نئے پاکستان کی کرامات واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہیں ۔ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے ۔ نوکریاں برس رہی ہیں اور اچھی گورننس نے عوام کو غربت سے نکال دیاہے ۔رہی بات مہنگائی کی ‘ وہ تو آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ یوں گمان ہوتا ہے سارے مسئلے خود بخود حل ہوتے جارہے ہیں ۔عوام چین کی نیند سونے اور فکر کی دنیا سے آزاد ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ ان کے تمام دکھ ‘ ساری پریشانیاں حکومت کی سمجھ میں آچکی ہیں ۔ اب بس دنوں اور ہفتوں کی بات ہے جب ہمارا ملک چین ‘ جاپان ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘جرمنی اور امریکہ سے برابری کرے گا۔
بنگلہ دیش اور جنوبی کوریاجیسے ممالک تو ہمارے سامنے کسی شمار قطار میں نہ ہوں گے ۔لوگ نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آیا کریں گے ۔ روپیہ ‘ڈالر اور پاؤنڈ کو پچھاڑکر آگے نکل جائے گا ۔ زرمبادلہ کے ذخائر اتنے ہوں گے کہ لوگ ڈالر اور روپیہ کا فرق بھول جائیں گے۔ ہماری صنعتیں اتنی ترقی کرجائیں گی کہ جدید ترین کاروں کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز بھی یہیں بناکریں گے ۔ دنیا ہم سے اچھے روابط بنانے کے لیے لائنوں میں لگی نظر آئے گی مگر ہماری نظرِ کرم کہاں ٹھہرے گی اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا ۔ آپ سو چ رہے ہوں گے کہ میں بلاوجہ بے پر َ کی اُڑارہا ہوں۔ نہیں جناب ‘ان تمام باتوں کی وجہ وفاقی وزیراطلاعات کی ''کرشماتی‘‘ گفتگو ہے ۔ وزیرموصوف فرماتے ہیں کہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ تین سالوں میں ہی پورا کردیا ہے ۔ چالیس ہزار نوکریاں تو صرف پنجاب کے محکمہ صحت نے دی ہیں ۔ سولہ لاکھ کے قریب لوگ روزگار کے لیے بیرون ملک گئے ہیں ۔ ملک میں ترقی کی شرح پانچ فیصد ہے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ملک میں لاکھوں نوکریاں پیدا ہورہی ہیں ۔یقین مانیں ‘ انسان میں'' غور ‘‘کرنے کی صلاحیت ہو تو وزیراطلاعات کا بیان منطق سے خالی نہیں لگتا ۔ ترقی اسے ہی تو کہتے ہیں ۔
سائنس کے کمالات اور کیا ہوتے ہیں ؟عوام جو سوچتے بھی نہیں حکمران وہ کرگزرتے ہیں ۔گھر بیٹھے عوام کو اتنی بڑی خوشی مل گئی ہے کہ سنبھالی نہیں جارہی ۔اب صورتحال یہ ہے کہ نوکریاں زیادہ ہیں اور امیدوار کم ۔ اب بھی اگرکچھ نوجوان بے روزگار ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور ؟وہ ڈگریاں لینے کے باوجود اگر نوکریاں نہیں ڈھونڈسکے تو ان کا اپنا ہی قصور ہوگا ورنہ جو حکومت ایک کروڑ نوکریاں دے سکتی ہے ان کے لیے چند اور لوگوں کے لیے روزگار فراہم کرنے میں کیا مشکل ہے ۔ وزیراعظم صاحب اکثر فرماتے ہیں کہ چین نے گزشتہ چار دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کئے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اگر چین کے پاس نوکریاں دینے والا پاکستان کا فارمولا ہوتا تو انہیں دہائیاں نہ لگتیں‘ وہ بھی چند سالوں میں یہ منزل پا سکتے تھے۔ یہ صدی ہی کرشمات کی صدی ہے ۔ بڑی بڑی ایجادات ہورہی ہیں اور بڑے بڑے کرشمے ہونے باقی ہیں ۔میاں نواز شریف کو لندن بیٹھے پاکستان میں ویکسین لگ جاتی ہے تو کروڑ نوکریاں کا دعویٰ کیا چیز ہے۔ کلثوم نوا ز اپنی وفات کے تین سال بعد '' زندہ‘‘ ہوسکتی ہے تو وزرا کی باتوں پر یقین کرنے میں قباحت کیا ہے؟ لاہور کے میوہسپتال میں سکیورٹی گارڈ آپریشن کرسکتا ہے تو نئے پاکستان میں کچھ بھی ناممکن نہیں ۔
میرے نزدیک عوام کو اب کسی فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ۔ ایسے ہی ایک دن کوئی وزیرٹی وی پر آکر بتائے گا کہ ہم نے پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ پورا کردیا ہے ۔ اب پاکستا ن میں کوئی بے گھر ہے نہ کرائے کی چھت تلے رہتا ہے ۔کچھ روز بعدپھرخبر دی جائے گی کہ ملک بھر سے مہنگائی کا قلع قمع کردیا گیا ہے ۔ چینی چون روپے میں دستیاب ہے اور گھی ڈیڑھ سو روپے فی کلو ملتا ہے ۔ پٹرول ‘ڈیزل ‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بھی واپسی کی راہ دکھا دی گئی ہے ۔ادویا ت سستی کر دی گئی ہیں اور کھانے پینے کی اشیا مفت ملنے کے قریب ہیں ۔ وہ دن بھی دور نہیں جب پٹوار سسٹم اورتھانہ کلچر کے تبدیل ہونے کی نوید سنا دی جائے گی ۔ حکومت اعلان کرے گی کہ ملک بھر سے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اب خواتین ہوں یا بچے ‘ بوڑھے ہوں یا جوان ‘ کوئی بھی کہیں بھی جاسکتا ہے ۔خواتین کی عزت محفوظ ہے اور بچے گلی محلوں میں اعتماد سے کھیل سکتے ہیں ‘ سونے چاندی سے لدی تنہا عورت پیدل چلے تو کوئی آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھے گا۔ وہ گھڑیاں بھی زیادہ دورنہیں جب پنجاب کے وزیراعلیٰ دعوے سے عوام کو بتائیں گے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنادیا گیا ہے ۔ اب کسی کے حقوق سلب ہوں گے نہ جذبات شعلے بن کر زبان پر آئیں گے ۔ جنوبی پنجاب کے لوگ اپنے بجٹ کو اپنی ضرورتوں پر خرچ کرپائیں گے ۔ صوبہ آگے جائے گا اور عوام خوشحال ہوں گے ۔ ایک اور کارنامہ جو حکومت عوام کو بتا کر حیران کرنے والی ہے وہ یہ کہ پاکستان کا قرضہ مکمل طورپر اتار دیا گیا ہے ۔ اب ہمیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا بلکہ ہمارے پاس اتنے اضافی پیسے ہیں کہ ہم دوسرے ملکوں کو قرضہ بھی دسکتے ہیں ‘امداد بھی اورتحائف بھی ۔
عوام خاطر جمع رکھیں حکومت کسی پریس کانفرنس میں اعلان بھی کرنے والی ہے کہ ملک کے طول وعرض میں ایسا کوئی سکول نہیں بچا جہاں بنیادی سہولیات دستیاب نہ ہوں ۔ چاردیواری نہ ہو اور کھیلنے کودنے کے لیے میدان نہ ہوں ۔ کوئی ہسپتال ایسا نہیں جہاں مریضوں کی دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح نہ کی جاتی ہو۔ ہر ضلع کی سطح پر جدید ہسپتال بنادیے گئے ہیں ۔ اب کوئی مریض لاہور کارخ کرتا ہے نہ کوئٹہ کا ۔ پشاور آتا ہے نہ کراچی ۔ کراچی سے یاد آیا ‘حکومت بہت جلد شاید یہ خوشخبری بھی عوام کو سنائے گی کہ کراچی کے مسائل حل ہوگئے ہیں ۔ پانی وافر مقدار میں ملتا ہے اور ٹرانسپورٹ کا نظام ملک کے کسی بھی دوسرے شہر سے بہتر ہے ۔ نالے صاف ہیں اور سٹرکیں کشادہ ۔ امن وامان مثالی ہے اور عوام کی زندگیاں آسان ۔
حکومتی اعلان سن کر دل تو چاہتا ہے یقین کرلیں مگر پھر مضطرب دماغ کہتا ہے گلاب کی پتیوں سے شبنم کے ٹپکتے قطرے دیکھنے والے عوام کے ماتھے سے گرتا پسینہ کہاں دیکھتے ہیں ۔وہ دیکھتے ہیں تو اپنی سیاست کو ۔ وہ عوام کی آہ وبکا کہاں سنتے ہیں ۔ وہ اپنے سیاسی بیانات کو سچ کے منصب پر بٹھاتے ہیں اور عوام کو گمراہی کی دیوار سے لگا کر قہقہے لگاتے ہیں ۔نئے پاکستان میں بھی یہ روایت بدرجہ اتم موجود ہے کیونکہ نئے پاکستان میں کچھ بھی نیا نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں