میں منٹو کے افسانے کا کردارہوں

گزشتہ روز ایک خواب دیکھا۔ لاہور کا مال روڈ میرے گھر اور آفس کے راستے میں آتا ہے۔ میں ہفتے میں چھ دن اس دیدہ زیب سڑک سے گزرتا ہوں۔ خواب دیکھا کہ میں جب کینال روڈ سے مال روڈ کی طرف مڑا تو ایک تانگے پر نظر پڑی۔ کوچوان کا رنگ سیاہ‘ قد لمبا‘ سینہ چوڑا اور مونچھیںبڑی بڑی تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مال روڈ پر تانگہ کہاں سے آ گیا۔ پھر فوراً خیال آیا کہ مہنگائی کا زمانہ ہے‘ پٹرول کی قیمت 160 روپے لٹر سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ اب گاڑی اور بس کے بجائے تانگے کی سواری کو غنیمت سمجھتے ہوں۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کوچوان نے تانگہ سٹرک کنارے کھڑا کیا اور میرے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ میری حیرت دوچند ہو گئی۔ میں نے حیرانی کے عالم میں اس سے پوچھا: کون ہو تم؟ مگر اس نے میرے سوال کو نظر انداز کر دیا۔
اس نے سر سے خاکی پگڑی اتار کر بغل میں دابی اور پھر خاصے مفکرانہ انداز میں کہا ''میں نہیں کہتا تھا کہ پورے برصغیر کو کسی پیر کی بددعا لگی ہے‘ یہاں جھگڑے اور فساد ختم ہی نہیں ہوتے۔ کہیں ہندوئوں اورمسلمانوں کے بیچ چاقو اور چھریاں چل رہی ہیں اور کہیں سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی کہ جا! تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فسادات ہی ہوتے رہیں‘ دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر کوچوان نے ٹھنڈی سانس بھری۔ میں نے موقع جان کر اپنا سوال دہرایا۔ کون ہو تم؟ اور مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ اس نے لمحے بھر کے لیے مجھے خالی خالی نظروں سے دیکھا اور پھر گویا ہوا: میں منگو ہوں! سعادت حسن منٹو کے افسانے ''نیا قانون‘‘ کا کردار۔
'' استاد منگو؟‘‘ میں نے بے ساختہ سوال کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مگر تم تو انگریز سپاہی سے جھگڑ ا کرنے کے جرم میں جیل چلے گئے تھے؟ ''ہاں! لگ بھگ آٹھ دہائیوں بعد آزادی ملی ہے‘ جیل سے باہر آیا ہوں تو دنیا ہی بدل چکی ہے۔ اب وہ لاہور رہا ہے نہ مال روڈ۔ انگریز چلے گئے ہیں اور ان کا قانون بھی رخصت ہو گیا۔ اب میری دھرتی آزاد ہے‘‘۔ استاد منگو نے ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ دیں۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے میری بات کو ٹوکتے ہوئے کہا ''میرے ساتھ آئو! میں تمھیں اپنے دوستوں سے ملواتا ہوں‘‘۔ میں زیر لب مسکرایا اور اس کے ساتھ ہو لیا۔
ہم دونوں مال سے چلے اور لکشمی چوک آ گئے‘ جہاں دو کوچوان پہلے سے موجود تھے۔ انہوںنے استاد منگو کو دیکھا تو مقناطیس کی طرح کھنچے چلے آئے۔ استاد منگو نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میںکہا ''کیوں گاما چودھری! میں نے کہا تھا نا کہ روس اور یوکرائن میں جنگ چھڑ جائے گی۔ روس کا بادشاہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ یہ کچھ کر کے رہے گا‘‘۔ گاما چودھری نے پہلے تو استاد منگو کی بڑائی اور دانائی کا اعتراف کیا اور پھر ایک سوال داغ دیا ''سب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم صاحب کو جنگ کے دنوں میں روس کا دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘ تمہارا اس بارے میںکیا خیال ہے؟‘‘۔ استاد منگو پاس ہی ایک تھڑے پر بیٹھا اور اپنی پگڑی بغل سے نکال کر گود میں رکھتے ہوئے بولا ''سب ٹھیک کہتے ہیں! آخر اتنی جلدی کیا تھی؟ کچھ ہفتے یا مہینے ٹھہر کر چلے جاتے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کے دورے سے روس کو سیاسی فائدہ پہنچا ہے اور ہمارے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔ ہم جو لینے گئے تھے وہ بھی نہیں ملا۔ نہ گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہو سکا اور نہ ہی توانائی کے منصوبوں پر تعاون مل سکا‘‘۔
یہ سن کر نتھو گنجا بھی تھڑے پر بیٹھ گیا اور بولا: اس کی کیا وجہ ہے استاد منگو؟ روس نے ہمارے وزیراعظم صاحب کے دورے کو اہمیت کیوں نہیں دی؟ استاد منگو بولا: بات اہمیت کی نہیں ہے‘ عزت تو اس نے بہت دی ہے‘ روس کا صدر تین گھنٹے ہمارے وزیراعظم صاحب کے ساتھ بات چیت کرتا رہا۔ بات یہ ہے کہ جنگ کی وجہ سے امریکا، برطانیہ اور یورپ نے روس پر پابندیاں لگا دی ہیں‘ جو ملک خود معاشی طور پر کمزور ہونے جا رہا ہو‘ وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گا؟
نتھوگنجا: اگر یہ بات ہے تو پھر امریکا ضرور ہم سے ضرور ناراض ہو گا؟
استاد منگو: امریکا تو پہلے بھی ناراض ہے‘ اسی لیے تو وزیراعظم صاحب کو فون تک نہیں کرتا۔ اب تو اس کی ناراضی آسمانوں سے باتیں کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ذریعے ہمیں مزید پریشان کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیں روس کے دورے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کر لینا چاہیے تھی۔ میرے منہ میں خاک! مگر یہ ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس کی پروا ہی نہیں۔ اگر انہیں فکر ہوتی‘ تو وہ ایسی غفلت برتتے؟ گاما چودھری: دھیرے بولو! کسی نے سن لیا تو قیامت آ جائے گی۔ سنا نہیں کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف مقدمے درج کیے جا رہے ہیں؟ نیا قانون آیا ہے! ملزم کو ضمانت بھی نہیں ملے گی اور پانچ سال کی سز ا بھی ہو جائے گی۔
''نیا قانون‘‘ کا لفظ استاد منگو کے لیے نیا نہیں تھا۔ وہ تو آزادی سے پہلے بھی اس لفظ کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھا تھا اور اس کے سحر میں گرفتار ہوکر ہی تو اس نے گورے کے ساتھ جھگڑا کیا تھا۔ آج وہ اس لفظ کو دوبارہ سن کر تڑپ اٹھا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ وہ غصے سے ابلنے لگا: نیا قانون آیا ہے! انگریز چلے گئے مگر ان کے طور طریقے آج بھی موجود ہیں۔ انگریزوں نے بھی سارے قانون عوام کو دبانے کے لیے بنائے تھے اور آج بھی حکمران انہی کے نقشِ قدم پر ہیں۔ تب بھی عوام پر غداری کے مقدمے بنتے تھے اور آج بھی توہینِ سرکار کے مقدمات گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں... استاد منگو بولتا بولتا رکا اور پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ گویا ہوا: آزادی سے پہلے میں بھی نئے قانون کے خمار میں تھا‘ مجھے لگتا تھا یہ قانون میری حفاظت کرے گا‘ انگریز سپاہیوں کے توہین آمیز رویے سے مجھے نجات دلائے گا‘ ہرکوئی میر ی عزت کرے گا‘ میں نے نئے قانون سے نئی امیدوں اور خوشیوں کو جنم لیتے دیکھا تھا مگر میرا یہ خمار چند لمحوں میں ہی دھواں ہو گیا۔ میں نے انگریز کو پیٹا اور پولیس نے مجھے جی بھی کر مارا۔ میں نیا قانون‘ نیا قانون پکارتا رہا مگر میری کسی نے نہ سنی۔ نجانے ہمارے حکمران کس خمار میں ہیں؟ اور کیا سو چ کر انہوں نے نیا قانون بنایا ہے؟ کیا قانون بنا دینے سے عوام کے منہ بند ہو جائیں گے؟ کیا مقدمے کا ٹرائل چھ ماہ میں مکمل ہو جانے سے ملک کے معاشی حالات بدل جائیں گے؟ کیا ناقابلِ ضمانت دفعات لگانے سے عام آدمی کا پیٹ بھر جائے گا؟ کاش! ہمارے حکمرانوں کو ادارک ہو جائے کہ عوام کا رویہ ڈرانے دھمکانے سے نہیں بلکہ مہنگائی کا منہ بند کرنے سے بدلے گا۔ اگر حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ نیا قانون آنے سے وہ محفوظ ہو گئے ہیں تو یقین مانو میر ی طرح وہ بھی غلطی پر ہیں۔ نئے قانون کا اعتبار کر کے میں بھی پچھتایا تھا اور ایک دن حکومتی اکابرین بھی پچھتائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں