ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید

مہتاب بھلے کالے پہاڑوں کے عقب سے طلوع ہو‘ اس کی چمک سے ہر شے دودھیا اجالے میں نہاتی چلی جاتی ہے۔ صحرا، ساحل، دریا، وادیاں، شہر اور دور تک پھیلے ہوئے گاؤں روشن ہو جاتے ہیں۔ مہتاب کی نقرئی کرنوں سے تاریکی مدہم پڑ جاتی ہے اور اندھیروں کو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملتی۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ عوام اُنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں جو خود مسائل کی جڑ ہیں۔ عوام ان سے روشنی کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو تاریکیوں کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ اگر عمران خان اور میاں نواز شریف سمیت سیاستدان عوام کی نظر میں مسیحا ہیں اور ان کے سینے میں عام آدمی کا درد ہے تو پھر پاکستان مسائل کی آماجگاہ کیوں بنا ہوا ہے؟ اگر یہ مہتاب ہیں تو ان کی چمک سے اندھیرے چھٹ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ پھول ہیں تو خوشبو سے عاری کیوں ہیں؟ اگر یہ ندی ہیں تو زمین اتنی بنجر کیوں ہے؟ اگر یہ چھاؤں ہیں تو دھوپ کی تپش نے عوام کو نڈھال کیوں کر دیا ہے؟ کیا کبھی ہم ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ پائیں گے؟ میری دانست میں سارا قصور عوام ہی کا ہے۔ انہیں سر پھوڑنے کے لیے سیاست دانوں ہی کا در ملتا ہے۔ کیوں؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ایک وقت تھا جب آئین شکنی کا طعنہ صرف آمروں کے حصے میں آتا تھا۔ سیاست دان اس الزام سے مبرا تھے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کو غدار سے لے کر چور‘ ڈاکو تک قرار دینے میں ذرا نہ ہچکچاتے تھے مگر آئین شکنی کا الزام ان پر مخالفین بھی نہیں لگاتے تھے۔ اب مگر وقت بدل گیا ہے۔ یہ تمغہ اب سیاستدانوں کو بھی نصیب ہونے لگا ہے اور دینے والے خود سیاستدان ہی ہیں۔ آج کی اپوزیشن حکومت کو آئین شکن قرار دے رہی ہے اور حکومت اپوزیشن کو آئین دشمن کہتی نہیں تھک رہی۔ دونوں طرف سے الزامات کی آندھی چل رہی ہے مگر افسوس‘ صد افسوس! اب اس طوفان نے اداروں کا بھی رخ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی گزشتہ ایک سال سے مقتدر حلقوں کے درپے ہے اور نت نئے الزامات لگا رہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے اپنی توپوں کا رخ معزز عدلیہ کی جانب موڑ لیا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر وزیرداخلہ تک اور مریم نواز شریف سے لے کر اراکینِ اسمبلی تک‘ سبھی نے تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیے ہیں۔ ایک دم ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جیسے ملک کے سارے مسائل نظامِ عدل کی کوکھ سے جنم لے رہے ہوں۔ وزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی ہے‘ وہ ان کے طرزِ سیاست کے بالکل برعکس تھی۔ انہیں شکوہ تھا کہ عمران خان کو ہر مقدمے میں ضمانت کیوں مل رہی ہے؟ پی ٹی آئی کے اکابرین کی آئین اور قانون شکنی پر انہیں سزائیں کیوں نہیں دی جا رہیں؟ وزیراعظم صاحب شاید یہ بھول گئے کہ عدالتیں ثبوت دیکھتی ہیں‘ الزامات نہیں، اور ثبوت دینا استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب مقدمات میں سیاسی رنگ بدرجہ اُتم نظر آئے گا تو ضمانتیں کیونکر نہیں دی جائیں گی؟ یہی حال گزشتہ حکومت کا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا کون سا ایسا رہنما تھا جو گرفتار نہ ہوا ہو اور بعد ازاں اسے ضمانت نہ ملی ہو۔ عمران حکومت بھی ایسے ہی الزامات لگاتی اور شور شرابہ کرتی تھی۔ کیا اب سب کچھ بھلا دیا گیا ہے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن کیس میں دو ججز نے جو اختلافی نوٹ لکھا‘ اس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اس کے سبب کتنے ہی خاموش کرداروں کو زبان بھی ملی ہے۔ یہ فیصلہ چار‘ تین سے حکومت کے حق میں آیا تھا یا تین‘ دو سے تحریک انصاف کے مؤقف کی جیت ہوئی تھی‘ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی نے کرنا ہے۔ میں سرِدست اتنی گزارش کرنا چاہوں گا کہ سات میں سے چار معزز جج صاحبان نے محض سوموٹو کے اختیار پر سوال اٹھایا تھا‘ کسی نے یہ نہیں کہا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے انتخابات نہ کروا کر ٹھیک قدم اٹھایا ہے۔ مذکورہ جج صاحبان کا موقف تھا کہ جب کیس دو ہائیکورٹس میں چل رہا ہے تو سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ الیکشن نوے دن سے آگے بھی جا سکتا ہے۔ اختلافی نوٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ حکومت نے الیکشن کمیشن کی معاونت نہ کرکے آئینی ذمہ داری نبھائی ہے اور الیکشن کمیشن اس بنیاد پر چھ ماہ بعد بھی انتخابات کرا سکتا ہے۔ اگر یہ سب اختلافی نوٹ کا حصہ نہیں ہے تو پھر حکومت کیوں ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہے؟
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت اتنی عجلت میں کیوں ہے؟ اس نے ایک ہی دن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ تمام اداروں کی طرح‘ نظامِ عدل میں بھی اصلاحات ناگزیر ہیں مگر یہ وقت ایسی کسی قانون سازی کے لیے سازگار نہیں۔ ملک کا سیاسی درجہ حرارت آسمان کو چھو رہا ہے‘ ایسے میں متنازع قانون سازی جلتی پر تیل کا کام کرے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوموٹو ایکشن کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی عدالت میں چیلنج ہو جائے گی تو میری دانست میں ایسا نہیں ہو گا۔ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کا اختیار بھی‘ مجھے اعتراض صرف ٹائمنگ پر ہے۔ اس وقت حکومت مکمل طور پر محاذ آرائی کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے۔ ہر طرف الزامات کی دھول اڑ رہی ہے۔ ایسے میں اعلیٰ عدلیہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کا مطالبہ مان کر الیکشن التوا کیس میں فل کورٹ بنا دینا چاہیے۔ یہ معاملہ اب پیچیدہ ہو چکا اور ایک نئے آئینی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ فل کورٹ کے فیصلے سے ہی یہ بحرانی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت ایک بار عدالتی فیصلے پر لیت ولعل سے کام لے چکے ہیں‘ اگر اب پانچ رکنی بینچ نے دوبارہ وہی فیصلہ دیا‘ تو پھر کیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن اور حکومت کا مؤقف بدلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ خاکم بدہن! کیا پھر انارکی نہیں ہو گی‘ انتشار نہیں بڑھے گا‘ سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ دراز نہیں ہو گا؟
سیاست دانوں کو چاہیے کہ ملک اور عوام پر رحم کھائیں۔ عدالتیں اس وقت سیاسی مقدمات سے بھری پڑی ہیں‘ عام آدمی کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ایک کے بعد ایک سیاسی مقدمے کے ذریعے عدالتوں کا وقت اور توانائی ضائع کی جا رہی ہے۔ نجانے کیوں ہمارے سیاست دان بھول جاتے ہیں کہ وقت کا پہیہ کبھی ساکت نہیں رہتا۔ اس نے چلنا ہی ہوتا ہے۔ کل پی ٹی آئی کی حکومت تھی، آج پی ڈی ایم برسر اقتدار ہے۔ کون جانے آئندہ کون حکمران ہو گا۔ جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے۔ گزشتہ حکومت بھی یہی کچھ کر رہی تھی جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ کسی کو عام آدمی کی فکر نہیں ہے۔ کیا عوام محض تماشائی بنے رہیں گے؟ کیا ہم ایسے ہی سیاست دانوں کی سیاست کی نذر ہوتے رہیں گے؟ کیا ہمیں اپنے آنے والے کل کی کوئی فکر نہیں؟ اگر سیاست دان عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کیا عوام کو بھی اپنے لیے کچھ نہیں کرنا چاہیے؟ اگر عوام اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم سیاست دانوں سے امیدیں وابستہ کرنا ہی چھوڑ دیں‘ یقین مانیں! اس سے بہت سے مسائل ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں