پی ٹی آئی کی ناکام حکمت عملی؟

قائد اعظم محمد علی جناح کا قول ہے: ''فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچو مگر جب فیصلہ کر لو تو پھر اس پر ڈٹ جاؤ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاستد ان قائداعظم کے فرمودات پر عمل پیرا ہوتے ہیں؟ کیا سیاسی فیصلے کرنے سے پہلے سوچ کا دیپ جلایا جاتا ہے اور قومی سطح کے فیصلے باہمی مشاورت سے‘ خوب سوچ بچار کے بعد کیے جاتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا کیے گئے فیصلوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے یا آدھی راہ سے یوٹرن لے لیا جاتا ہے؟ دنیا بھر میں سیاست کی دیوار اصولوں، ضابطوں اور قاعدوں کی اینٹوں سے بنائی جاتی ہے اور پھر اسے سچ، ظرف اور اعلیٰ اَخلاق کی لڑیوں سے سجایا جاتا ہے مگر افسوس! ہماری سیاست میں یہ تمام چیزیں ناپید ہو چکی ہیں۔ اب ہر طرف جھوٹ، بداخلاقی اور بہتان تراشی کا راج نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش، بالادستی کا جنون اور اقتدار کی ہوس نے اہلِ سیاست کو قومی مفاد کو مقدم رکھنے والی بینائی و بصیرت سے محروم کر دیا ہے۔ اب انہیں صرف سیاسی مفادات نظر آتے ہیں اور انہی کی تکمیل کے لیے تگ و دو کی جاتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کا فلسفۂ سیاست بہت سیدھا ہے؛ یہ اپنے آدھ پاؤ گوشت کے لیے قوم کی گائے قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
ان دنوں سیاسی درجہ حرارت نسبتاً کم ہے اور اس کی وجہ سیاسی ڈائیلاگ ہے‘ جو اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوا ہے۔ یہ مذاکرات سیاست کے مستقبل، سپریم کورٹ کے تقدس اور آئین و قانون کے بھرم کے لیے انتہائی ناگزیر اور اہم ہیں۔ مذاکرات کے تیسرے دور کے بعد پی ٹی آئی نے بات چیت یک طرفہ طور پر ختم کرکے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف حکومتی ٹیم کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا آخری دور ہونا ابھی باقی ہے۔ پی ٹی آئی 14 مئی کو الیکشن کی ضد چھوڑ کر ایک ساتھ الیکشن کرانے پر راضی ہو گئی ہے مگر جھگڑا الیکشن کی تاریخ کا ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ پی ٹی آئی کیا چاہتی ہے اور حکومت کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے بھی یا نہیں۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور دیگر حلقوں کو پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ الیکشن ایک ساتھ ہی ہوں گے‘ الگ الگ انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے سیاست دانوں کو موقع دیا گیا کہ وہ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں‘ پی ٹی آئی حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر راضی کر لے یا پھر حکومت پی ٹی آئی کو اپنے مؤقف پر قائل کرے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان ذہنی طور پر اکتوبر میں الیکشن کے لیے تیار ہیں مگر انہیں محفوظ راستہ چاہیے۔ ویسے شاید محفوظ راستہ تو سپریم کورٹ کو بھی درکار ہو۔ سپریم کورٹ تین بار فیصلہ دے چکی ہے کہ پنجاب میں الیکشن کرائے جائیں مگر حکومت 14 مئی کو انتخابات کرانے کے لیے راضی نہیں ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا کیا ہوگا؟ چودہ مئی سے آگے کیسے بڑھا جائے گا‘ اس کا حل سیاست دانوں نے نکالنا ہے۔ میاں نواز شریف نے حکومت کو قبل از وقت انتخابات سے روک دیا ہے اس لیے حکومتی مذاکراتی ٹیم نے دو عذر پیش کیے ہیں۔ ایک بجٹ اور دوسرا آئی ایم ایف سے معاہدہ۔ بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش ہوگا اور 30 جون تک آئی ایم ایف کے پروگرام کی مدت ہے۔ بادی النظر میں حکومت وقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ چودہ مئی کی ڈیڈلائن گزر جائے مگر پی ٹی آئی گارنٹی مانگ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ شاید حکومت اکتوبر میں بھی الیکشن نہ کرائے۔اس لیے وہ تحریری معاہدے کی خواہاں ہے۔ دوسرا‘ پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی حکومتوں کی بحالی چاہتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے کہا ہے کہ ہمیں یہ نگران سیٹ اَپ قبول نہیں‘ اگر فوری الیکشن نہیں ہونے تو پھر پرویزالٰہی اور محمود خان کی حکومتیں بحال کی جائیں۔ حکومت سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟ آگے کھائی ہے اور پیچھے کنواں۔ جائیں تو جائیں کہاں!
اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے۔ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی بات منوانی ہے تو پھر پی ٹی آئی کی خواہشات کا بھی احترام کرنا پڑے گا مگر دقت یہ ہے کہ حکومتیں بحال کیسے ہوں گی؟ آئین و قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ پھر یہ عقدہ کیسے کھلے گا؟ اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں؛ سپریم کورٹ پنجاب الیکشن سوموٹو کیس میں باہمی رضامندی سے سابقہ حکومتیں بحال کرنے کا فیصلہ دیدے۔ اگر حکومت اور پی ٹی آئی اس پر متفق ہو گئیں تو اس بات کا امکان موجود ہے کیونکہ آخری سماعت میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ اگر سیاسی مذاکرات نتیجہ خیز ہوئے تو عدالت آئینی رخنہ نہیں ڈالے گی۔ ویسے بھی آئین کی شق 184/3 کے تحت سپریم کورٹ کا اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔
مذکورہ آئینی بحران کا دوسرا حل یہ ہے کہ مذکورہ کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے عدالت یہ دیکھے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں آئینی طور پر تحلیل ہوئی تھیں یا نہیں؟ دوست مزار ی رولنگ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر اس کیس کو بھی اس اصول کے تحت دیکھا جائے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔ پرویز الٰہی، ان کی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر عمران خان نے ان کو مجبور کیا تھا۔ اگر اسمبلی کا ٹوٹنا ہی غیر آئینی قرار دے دیا جائے تو پرویز الٰہی کی حکومت خودبخود بحال ہو جائے گی۔ 1993ء میں جب صدر غلام اسحاق خان نے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کا استعمال کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی پہلی حکومت ختم کی تھی تو عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ صدر نے مذکورہ آرٹیکل کا غلط استعمال کیا ہے‘ اس لیے میاں نواز شریف کی حکومت بحال کی جاتی ہے۔
قانون سے متعلق میرا محدود علم و فہم یہ کہتا ہے کہ وفاقی حکومت ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اسمبلیاں بحال نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کی معاونت ناگزیر ہے۔ اگر تمام سٹیک ہولڈرز آئینی اور سیاسی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پی ٹی آئی کی تجویز ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی سنجیدہ نوعیت کا بحران سر اٹھاتا ہے تو بیچ کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا ورنہ جو سیاست کے حالات ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پی ٹی آئی اتنے جذباتی فیصلے کیوں کرتی ہے؟ اس کی ہر حکمتِ عملی ناکامی سے کیوں دوچار ہوتی ہے؟ اسے ہر بار یوٹرن ہی کیوں لینا پڑتا ہے؟ خان صاحب کی حکومت ختم ہوئے ایک سال ہوگیا ہے مگر یوں لگتا ہے ان کی یوٹرن لینے کی عادت کبھی ختم نہیں ہو گی۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر لگایا مگر بعد ازاں موقف بدل لیا۔ پھر 25 مئی کو لانگ مارچ کیا مگر اس پر بھی قائم نہ رہے۔ جیل بھرو تحریک شروع کی‘ وہ بھی جلد ہی اختتام پذیر ہو گئی۔ اپنے جلسوں میں قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی مگر پھر انہیں نئے انتخابات ہونے تک ایکسٹینشن آفر کر دی۔ وفاقی حکومت گرانے کی خواہش لے کر راولپنڈی گئے مگر وہاں اپنی ہی دو صوبائی حکومتیں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی بحالی چاہتے ہیں۔ انہیں سوچنا ہوگا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کیا حاصل وصول ہوا؟ سوائے اس کے کہ انہیں حکومت کے خلاف ایک اور بیانیہ بنانے کا موقع مل گیا۔ انہیں ادراک کرنا ہو گا کہ ان کی جلدی بازی کے باعث آئین، قانون، عدالت، سیاست اور معیشت کا کیا حال ہو چکا ہے۔ کیا سیاست اسی کانام ہے؟ کیا عوام کا درد اسی کو کہتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں