عمران خان کی دانشمندی کا امتحان

شیخ سعدی کا قول ہے: غصہ زہر کی مانند ہوتا ہے اور جلدبازی ہوش مندی کی دشمن۔ انسان کی سب سے بڑی خامی غصہ، ضد، انا اور ہٹ دھرمی ہے۔ جوشخص بھی اس کا شکار ہوتا ہے عقل، فہم، منطق اور دانائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جلدبازی اس کی طبیعت میں رچ بس جاتی ہے اور اس کے کیے ہوئے تمام فیصلے غلط ہونے لگتے ہیں۔ سیاست دان عمومی طور پر تحمل مزاجی اور برداشت کا مجموعہ ہوتے ہیں مگر جب غصہ انہیں اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو نفرت کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر نقصان قوموں کو اٹھانا پڑتا ہے۔
عمران خان کو الفاظ کی جادو گری آتی ہے اور وہ اپنی قوتِ بیان سے عوام کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ورکرز ان کی ہر بات پر لبیک کہتے ہیں۔ وہ دن کہیں تو دن، رات بولیں تو رات۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے عمران خان اپنی بات منوانے کے عادی ہیں اور جو اپنی شرائط پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت عمران خان عوامی مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں مگر انہیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر عروج کا ایک زوال بھی ہوتا ہے۔ حالات و واقعات کی تپش بتا ر ہی ہے کہ شاید عمران خان کی مقبولیت اور سیاسی زوال کے ابتدا ہو چکی ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو اور دس مئی کو پی ٹی آئی کے ورکرز نے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، جلاؤ گھیراؤ کیا، نجی اور سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا، عسکری تنصیبات کو آگ لگائی اور عا م لوگوں کی گاڑیاں جلائیں۔ اس کی قیمت اب عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر اکابرین کو ادا کرنا پڑے گی۔ وفاقی حکومت پہلے ہی عمران خان کے درپے ہے اور اب کور کمانڈر کانفرنس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ''آرمی کے رینک اور فائل میں جلاؤ گھیراؤ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر افواجِ پاکستان ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اُکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں سے بخوبی واقف ہے۔ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی، تاریخی عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے اور عسکری تنصیبات کی توڑ پھوڑ پر مشتمل ایک مربوط منصوبے پر عمل درآمد کروایا گیا تاکہ ادارے کی بدنامی ہو۔ یہ سارا عمل ایک ذاتی سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لیے تھا‘‘۔
کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں کسی پارٹی یا سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام نہیں لیا گیا مگر عمران خان نے اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی ٹویٹ کرکے عوام کو مطلع کر دیا تھا کہ ان پر بغاوت کا مقدمہ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے اور اس کے بعد انہیں دس سال کے لیے قید میں رکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی دیگر قیا دت بھی زیرِ عتاب آئے گی اور تحریک انصاف کو کالعدم قراردینے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیے اور عمران خان کے ٹویٹ کو ملا کر پڑھا جائے تو ساری کہانی سمجھ آ جاتی ہے کہ آئندہ دنوں میں ہونے کیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو یقین ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کی منصوبہ بندی خود عمران خان نے کی تھی اور ان کی پارٹی قیادت نے اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ اگر ان افسوس ناک واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی تو یقینا عمران خان بھی ان کی زد میں آئیں گے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ضرور سوال اٹھے گا کہ آرمی ایکٹ کے تحت تو صرف ڈیفنس سروسز سے وابستہ افراد کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے‘ اس کی گرفت میں عام لوگ اور سیاست دان کیسے آ سکتے ہیں؟ اس حوالے سے عرض ہے کہ آرمی ایکٹ 1952ء کے سیکشن ٹو کی سب کلاز ڈی ٹو میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو افراد بھی آرمی پر حملہ آور ہوں گے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے، خفیہ ایجنسیوں پر حملہ کریں گے، سول اور ملٹری تنصیبات کو نقصان پہنچائیں گے، ملک میں خوف و ہراس اور انتشار پھیلائیں گے اور ایسے لوگوں‘ ان کو اکسانے اور مدد فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر جرم ثابت ہو جائے گا تو پانچ سال سے چودہ سال تک سزا دی جا سکتی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان سزاؤں کے خلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جا سکتی۔ جو ایک بار مجرم ثابت ہو گیا‘ وہ سزا پوری کر کے ہی باہر آئے گا۔ یہی نہیں‘ آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1935ء کے تحت بھی مقدمات بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں بھی لکھا ہے کہ سرکاری، نیم سرکاری، حساس اور ممنوعہ عمارتوں کو نقصان پہنچانے والوں، پولیس اور آرمی کے کام میں مداخلت کرنیوالوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اگر پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کے خلاف یہ مقدمات بھی ثابت ہوتے ہیں تو چودہ سال تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس سارے کھیل کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان نے ان پُرتشدد واقعات کی تاحال مذمت تک نہیں کی۔ چیف جسٹس نے انہیں مذمت کرنے کا کہا مگر وہ ٹال گئے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے کے بعد پی ٹی آئی نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا ''ہم برملا اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کسی بھی آزادانہ انکوائری میں پیش کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلاؤ گھیراؤ میں ایجنسیوں کے اہلکار ملوث تھے‘‘۔ عمران خان نے بھی اسی قسم کا ٹویٹ کیا ہے۔ اس طرح کے ردِعمل سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو نو اور دس مئی کے واقعات پر کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کا رویہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی کے اکابرین کی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جو لوگوں کو کورکمانڈر ہاؤس اور دیگر عسکری تنصیبات پر حملے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا مؤقف درست ہے مگر پھر بھی کچھ سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات انہوں نے ہی دینے ہیں۔ اگر تحریک انصاف پُرامن احتجاج کرنا چاہتی تھی تو پھر مظاہرین کو حساس تنصیبات کے سامنے کیوں لے جایا گیا؟ کنٹونمنٹ علاقوں میں گھسنے کا کیا جواز تھا؟ اگر ان شر پسندوں کا پی ٹی آئی سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر ان واقعات کی مذمت کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ان کے دفاع میں بیان بازی کیوں کی جا رہی ہے؟ پی ٹی آئی نے الزام ریاستی اداروں پر ہی کیوں لگایا ہے؟
عمرا ن خان اور پی ٹی آئی کے اکابرین کو چاہیے کہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ جلد بازی میں کیے گئے فیصلے الٹے پڑ جاتے ہیں۔ غصے سے بھرا ردِعمل دینے کے بجائے حالات کا تجزیہ کریں اور الزام تراشی کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ ہو سکتا ہے کہ معاملات بہتر ہو جائیں۔ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہے جبکہ کورکمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی کہا گیا ہے کہ ''موجودہ غیر مستحکم سیاسی صورتحال میں قومی سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے اعتماد، معاشی ترقی اور جمہوری عمل کو دوام بخشا جائے‘‘۔ میرے خیال میں اگر ملک کو مزید انتشار اور افراتفری سے بچانا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ عمران خان کو غصہ اور حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑنا ہو گی۔ الزام تراشی کی سیاست کو خیربا د کہنا ہوگا اور ایک دوسرے کا باہمی احترام کرنا ہوگا‘ ورنہ سیاسی اور معاشی حالات جس جانب بڑھ رہے ہیں آگے تباہی ہی تباہی ہے۔ فتنہ ہی فتنہ اور فساد ہی فسادہے۔ اب عمران خان کی دانشمندی کا امتحان ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت، سیاست اور ملک کو بچانا ہے تو ضد اور انا کو تیاگنا پڑے گا۔ ویسے بھی اب حکومت محض تین ماہ کی مہمان ہے۔ عمران خان کو اس کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں اور فتح یاب ہو کر دوبارہ مسندِ اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں