عمران خان کی دس سیاسی غلطیاں

طاقت، دولت اور شہرت کا خمار انسان میں تکبر، ضد اور ہٹ دھرمی پیدا کرتا ہے۔ اقتدار اور مقبولیت مل تو جاتے ہیں مگر ان کو سنبھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ جہاں دیدہ، زیرک اور باصلاحیت لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو دائمی ہو‘ سب نے بالآخر فنا ہی ہونا ہے۔ 2022ء کے آغاز تک مسلم لیگ (ن) ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت سمجھی جا رہی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت اس وقت خاصی غیر مقبول ہو چکی تھی اور وزرا عوام میں جانے سے گریزاں تھے۔ ایک غلط فیصلے نے (ن) لیگ کی شہرت کو پاتال میں پھینک دیا اور پی ٹی آئی کو مقبولیت کے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ مقبولیت کا خمار سر چڑھ کر بولنے لگا تو وہی ایک غلطی تحریک انصاف نے بھی کر دی۔ نو اور دس مئی کو جو کچھ ہوا‘ وہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پُرتشدد واقعات کی قیمت اب عمران خان اور ان کی جماعت کو ادا کرنا ہے۔ ان کی نیک نامی اور مقبولیت کو داغ لگ چکا ہے اور یہ دھبہ مسلسل پھیل رہا ہے۔
حکومت اور مقتدر حلقوں نے فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو رعایت نہیں دی جائے گی۔ پنجاب حکومت عمران خان اور دیگر ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور وزیراعلیٰ نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک بھر میں عمران خان اور دیگر اکابرین کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جاتے ہیں تو اس کا سیاست اور معاشرت پر کیا اثر ہو گا؟ اگر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کی کارروائی شروع کرتا ہے تو کیا آئین کی شق 17 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ایسا ممکن ہو سکے گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی مشکلات دوچند ہونے والی ہیں۔ کراچی، آزاد کشمیر، بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے بہت سے سیاستدان پارٹی کو خیرباد کہنے والے ہیں۔ گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی حکومت بھی خطرے میں ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی پر جزوی یا مکمل پابندی لگ سکتی ہے اور عمران خان کا سیاسی مستقبل بھی گرداب کا شکار ہے۔ نو اور دس مئی کو جو کچھ ہوا‘ یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عمران خان سے مقبولیت سنبھالی نہیں گئی۔ وہ شہرت کے خمار میں ایک کے بعد ایک غلطی کرتے رہے اور منزلِ اقتدار سے دور ہوتے چلے گئے۔ عمران خان جب تک ''سیم پیج‘‘ پر تھے تو بہت خوش تھے مگرجب سے سیم پیج کا اختتام ہوا ہے‘ وہ بہت تلخ ہو گئے۔وہ جان بوجھ کر کشیدگی بڑھاتے رہے۔ عمران خان اور مقتدر حلقوں کے مابین تناؤ کی کہانی بہت طویل ہے۔ عمران خان کو مسلسل غلط فیصلے کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر خان صاحب ہمیشہ ضد کی بانسری بجاتے رہے۔ آئیے اُن کے ان تمام غلط فیصلوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں جن کے باعث ملک کو آج یہ حالات دیکھنے پڑ رہے ہیں۔
(1) عمران خان اور مقتدرہ کے درمیان پہلی تلخی اکتوبر 2021ء میں پیدا ہوئی۔ جنرل باجوہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو تبدیل کرنا چاہتے تھے مگر عمران خان ڈٹ گئے۔ آئی ایس پی آر نے نئی تعیناتی کا اعلان بھی کر دیا مگر وزیراعظم نے دو ماہ تک نوٹیفکیشن جاری ہی نہیں کیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس کے بعد سے راہیں جد ا ہو گئیں۔ (2) فروری 2022ء میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی باتیں سامنے آئیں تو خان صاحب نے شوکت ترین کے مشورے سے ایک سیاسی چال چلی۔ آئی ایم ایف معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں کم کر دیں۔ اس وقت بھی خان صاحب کو سمجھایا گیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنا قومی مفا د کے خلاف ہے اور معیشت کے لیے زہرِ قاتل مگر خان صاحب نے ایک نہ سنی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی۔
(3) مارچ 2022ء میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو عمران خان نے سائفر اور امریکی سازش کا بیانیہ تراشنا شروع کر دیا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ ایسا مت کریں‘ یہ الزامات بے بنیاد ہیں‘ اگر آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھا توخارجہ محاذ پر ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا مگر خان صاحب نے الزامات کی آندھی کو مزید تیز کر دیا۔ (4) وزیراعظم شہباز شریف مئی 2022ء کے آخری ہفتے میں استعفیٰ دینے لگے تھے۔ خان صاحب نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان سے پہلے انہیں تلقین کی گئی تھی کہ اگر وہ الیکشن کے لیے سنجیدہ ہیں تو لانگ مارچ سے گریز کریں مگر انہوں نے وہی کیا جو ان کو سیاسی طور پر سوٹ کرتا تھا۔ وفاقی حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان تو کردیا گیا مگر پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ (5) پچیس مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد خان صاحب شدید غصے میں آ گئے اور انہوں نے باجوہ صاحب کے خلاف محاذ کھول لیا۔ انہیں غدار، میر جعفر، میر صادق اور امریکہ کا آلہ کار تک کہا۔ خان صاحب نے نیوٹرل ہونے کو طعنہ بنا دیا۔ اس بیانیے کے باعث خلیج بڑھتی چلی گئی۔
(6) گزشتہ سال کینیا میں ارشد شریف کے اندوہناک قتل کے بعد پی ٹی آئی نے کھل کر منفی سیاست کی۔ اداروں پر بے جا الزامات لگائے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلوائے۔ اسی موقع پر تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی اور اداروں کے خلاف چلنے والی منظم منفی مہم کو بے نقاب کیا۔ (7) جب ایک ایک کرکے تمام حربے ناکام ہونے لگے تو خان صاحب نے اہم تعیناتی کو متنازع بنانا شروع کر دیا۔ وہ جلسوں میں کہنے لگے کہ پی ڈی ایم حکومت اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے اپنی مرضی کا چیف لگانا چاہتی ہے۔ ایسے نجانے کتنے ہی الزامات تھے جو یہاں دہرائے بھی نہیں جا سکتے۔ پھر اکتوبر‘ نومبر میں اہم تعیناتی رکوانے کے لیے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا۔ وہ جہاں تقریر کرتے‘ اداروں کو متنازع بناتے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ نئی تعیناتی کا معاملہ اگلی حکومت کے قیام تک کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔
(8) نومبر میں خان صاحب کا لانگ مارچ جاری تھا کہ ایک جنونی نے عمران خان کے قافلے پر فائرنگ کر دی۔ گولیوں کے کچھ شیل خان صاحب کو بھی لگے مگر خدا کا شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ایف آئی آر کی آڑ میں ایک حاضر سروس سینئر آفیسر کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ انہیں بار بار متنبہ کیا گیا مگر وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔
(9) وفاقی حکومت ختم کرنے کے سارے حربے ناکام ہوگئے تو عمران خان نے 26 نومبر 2022ء کو راولپنڈی کے جلسے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اپنی حکومتیں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مقتدر حلقے ایک بار پھر حرکت میں آئے اور خان صاحب کو سمجھایا کہ دو صوبوں میں قبل از وقت الیکشن سے وفاق اور ریاست کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے اور انتخابات کی شفافیت پر سوالات الگ سے اٹھیں گے۔ سب سے بڑھ کر ملک کے معاشی اور سکیورٹی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ایسا کرنے سے باز رہیں مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ آج ملک میں جتنے بھی آئینی اور سیاسی بحران ہیں وہ اسی ایک فیصلے کی وجہ سے ہیں۔
(10) پنجاب اور کے پی میں نگران حکومتیں آ گئیں مگر وفاقی حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود معینہ مدت میں الیکشن نہیں کرائے۔ اسی دوران 9 مئی کو عمران خان کو کرپشن کے الزامات پر نیب نے جب گرفتار کیا تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک بھر میں فسادات شروع کر دیے۔ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، عسکری تنصیبات پر حملے کیے گئے، کورکمانڈر ہاؤس لاہور کو جلادیا گیا، سرکاری اور نجی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ عمران خان تو دو دن بعد ہی رہا ہو گئے مگر انہوں نے دس دن بعد اس واقعے کی مذمت اس انداز میں کی کہ الزامات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں