بروقت اور منصفانہ الیکشن ضروری

شہباز حکومت امیدِ سحر لے کر آئی تھی اور تلخ حقائق چھوڑ کر رخصت ہو گئی ہے۔ گزرے سولہ ماہ کا عرصہ اپنے پیچھے بہت سی تلخ یادیں چھوڑ گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین جبکہ شرحِ نمو تاریخ کی پست ترین سطح پر ہے۔ عام آدمی کے لیے جینا دوبھر ہو چکا ہے اور حالات میں فوری بہتری کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ خیر‘ جو ہوا سوا ہوا، پی ڈی ایم حکومت اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے اور اب نگران حکومت کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ حلف اٹھا چکے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار کوئی نگران حکومت بظاہر ''غیر معینہ مدت‘‘ کے لیے آئی ہے۔ انوار الحق کاکڑ کے وزیراعظم نامزد ہوتے ہی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ انتخابات مزید التوا کا شکار ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ کاکڑ صاحب کی نامزدگی میں مسلم لیگ (ن) کی مرضی اور منشا بھی شامل ہے اور الیکشن بھی چھ ماہ سے زیادہ ملتوی نہیں ہو سکیں گے۔ نجانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ نئی حکومت کا تشکیل پانا ایک بنیادی آئینی تقاضا ہے۔ 20ستمبر کو صدرِ پاکستان کے عہدے کی میعاد ختم ہو رہی ہے، اگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں نہیں ہوں گی تو نئے صدر کا انتخاب کیسے ہو گا اور سب سے بڑھ کر‘ مارچ 2024ء میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سمیت آدھے سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اگر عام انتخابات بروقت نہ ہوئے تو پھر سارا نظام تلپٹ ہو جائے گا جو سراسر آئین کی پامالی کے مترادف ہو گا۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن لامتناہی عرصے تک التوا کا شکار رہیں گے۔ بالفرض اگر ایسا ہوا تو یہ اُس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بہت بڑا امتحان ہوگا کیونکہ قاضی صاحب آئین کی سربلندی کے دعوے سب سے زیادہ کرتے رہے ہیں۔
ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نفیس اور پڑھے لکھے سیاسی ورکر ہیں۔ یہ عہدہ ان کے لیے بہت سے چیلنجز لے کر آیا ہے۔ اس وقت ملک کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اس لیے ان کے لیے چیلنجز بھی کٹھن ہوں گے۔ انہیں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا‘ آئیے ایک ایک کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں:
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو سب سے بڑا چیلنج ان کی غیر جانبداری ہو گا۔ انہیں جس دن نگران وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا‘ وہ اس روز بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر اور سینئر رہنما تھے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230 میں صاف طور پر لکھا ہے کہ نگران وزیراعظم غیر جانبدار ہو گا۔ یہ کاکڑ صاحب کی ذاتی شخصیت ہے کہ پی ٹی آئی نے بھی ان کے نام پر اعتراض نہیں کیا۔ اگرچہ انفرادی طور پر اختر مینگل یا اے این پی کے کچھ اعتراضات سامنے آئے ہیں مگر کسی بڑی جماعت یا سیاسی شخصیت نے نگران وزیراعظم کی تعیناتی پر سوالات نہیں اٹھائے۔ کاکڑ صاحب اب سینیٹ اور اپنی پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکے ہیں مگر اتنا کافی نہیں ہے۔ انہیں بہرحال غیر جانبداری نہ صرف دکھانا بلکہ ثابت بھی کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر مراسم رکھنا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ غیر جانبداری کے تمام تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اسی میں جمہوریت کی جیت ہے۔
نگران وزیر اعظم کے لیے دوسرا بڑا چیلنج غیر جانبدار اور غیر متنازع کابینہ کا قیام ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایسے وزیر چن لیے جائیں جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230 پر پور ے نہ اتر سکیں۔ یقینا کابینہ کی تشکیل ایک مشکل مرحلہ ہے اور اقربا پروری سے اجتناب بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کابینہ کے ارکان سیاسی جماعتوں کے رہنما ہوں یا ان کو کسی سیاسی رہنما کی اشیرباد حاصل ہو۔ نگران کابینہ میں پڑھے لکھے پروفیشنلز کو موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک کے مسائل حل ہو سکیں۔ نگران وزیراعظم کو چاہیے کہ خزانہ، خارجہ، داخلہ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور تجارت کی وزارتوں کے لیے بہترین اور موزوں لوگوں کا انتخاب کریں۔ اگر اس معاملے میں کوتاہی برتی گئی تو عوام کی مشکلات دوچند ہو جائیں گی۔
نگران حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی اور مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔ اس وقت معیشت ٹریک پر آ رہی ہے اور ہمیں ہر صورت آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کرنا ہے۔ نومبر میں نیا جائزہ ہونا ہے اس کے بعد ایک ارب ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔ اس کے بعد اگلا جائزہ فروری 2024ء میں ہو گا۔ اُس وقت بھی ملک میں نگران حکومت ہی ہو گی‘ اس لیے ضروری ہے کہ فیصلے وہ کیے جائیں جو وقت کی ضرورت اور ملکی مفاد میں ہوں۔ اگر اس بار آئی ایم ایف معاہدے میں رخنہ آیا تو عوام یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ مہنگائی آخری حدوں کو چھونے لگے گی اور پیداواری سرگرمیوں کی ناؤ مکمل ڈوب جائے گی۔ ملک کے معاشی حالات سنجیدگی کا تقاضاکرتے ہیں‘ اس لیے وزیرخزانہ کا تجربہ کار ہونا بہت ضروری ہے۔
نگران وزیراعظم کو سیاسی استحکام کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ملک سیاسی طور پر شدید عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ کبھی سٹرکیں بند ہو جاتی تھیں اور کبھی ریلیاں نکالی جاتی تھیں، کبھی لانگ مارچ کیا جاتا تھا اور کبھی دھرنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ ملک کی سیاسی فضا میں شدت پسندی کا راج تھا۔ اب نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی استحکام کے فروغ کے لیے کام کرے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلقات بہتر کرے تاکہ حالات مزید خرابی کا شکار نہ ہو سکیں۔
نگران وزیراعظم کو نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ہزاروں افراد اس وقت جیلوں میں بند ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ جو افراد شرپسندی میں ملوث ہیں‘ انہیں سزا ضرور ملنی چاہیے اور جو بے قصور ہیں‘ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ نگران حکومت کو پی ٹی آئی چیئرمین کے ساتھ بھی انصاف کرنا پڑے گا‘ انہیں بلاوجہ مقدمات کی چکی میں نہیں پیسنا چاہیے۔ وہ اس وقت نگران حکومت کے قیدی ہیں۔ جیل میں جو سہولتیں ایک سابق وزیراعظم کو ملتی ہیں‘ انہیں بھی ملنی چاہئیں۔
گزشتہ پانچ سال میں سیاسی نظام اور سیاستدانوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کاکڑ صاحب کو اس ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ عوام کا اعتماد سیاستدانوں پر سے متزلزل ہوا ہے جو کسی طور اچھی روایت نہیں ہے۔ نگران وزیراعظم کو یہ ادراک کرنا ہو گا کہ ان کی حکومت دو یا تین نہیں بلکہ چھ سے سات ماہ کے لیے آئی ہے۔ ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جسے انہیں ہر حال میں نبھانا ہے۔
نگران حکومت کو انتخابات کے بروقت اور منصفانہ انعقاد کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔ ملک کو اس وقت فری اینڈ فیئر الیکشن کی سخت ضرورت ہے۔ ایسا الیکشن جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اسے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا ہو گا۔ افسران کا تقرر و تبادلہ میرٹ پر ہونا چاہئے نہ کہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر۔ پی ٹی آئی کو بھی الیکشن میں بھر پور طریقے سے حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ الیکشن کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ اگر نگران حکومت بروقت اور منصفانہ الیکشن کرانے میں کامیاب ہو گئی تو لوگ اس حکومت کو دہائیوں تک یاد رکھیں گے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تو پھر ملک میں سیاست اور جمہوریت کا مستقبل مزید تاریک ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں