میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تُھو

کیا یہ ممکن ہے کہ آپ غلیل سے ہاتھی کا شکار کرنے نکل پڑیں؟ کچھوے سے توقع کریں کہ وہ چیتے جیسی پھرتی دکھائے اور ریس جیت لے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جنگ میں میزائلوں اور توپوں کا مقابلہ تلواروں سے کیا جائے؟ کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے مسائل کتنے منہ زور ہیں اور عوام کس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں؟ روپے کی تنزلی جاری ہے، بیرونی قرضہ آسمانوں کو چھو رہا ہے، برآمدات روز بروز کم ہو رہی ہیں، زرِمبادلہ کے ذخائر آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں، معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے اور کاروبار کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ ناقابلِ بیان۔ اور اگر ہمیں اس سب کا ادراک ہے تو پھر الیکشن چھ ماہ ملتوی کرنے کا خیال بھی کیسے آیا؟ نگران کابینہ تشکیل دیتے وقت میرٹ کو ملحوظِ خاطر کیوں نہ رکھا گیا۔
گزشتہ ایک ہفتے سے الیکشن کمیشن تذبذب کا شکار تھا کہ آئین کی شق 51 کی سب کلاز پانچ پر عمل درآمد کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں اور پھر الیکشن کا شیڈول دیا جائے یا آئین کی شق 224 کو فوقیت دیتے ہوئے پرانی مردم شماری پر الیکشن نوے روز میں کرا دیے جائیں۔ قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ الیکشن کمیشن خود سے فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ آئین کی کون سی شق کے مطابق حکمت عملی ترتیب دی جائے‘ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی درخواست کی‘ جو منظور کر لی گئی۔ یہ ملاقات لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی۔ چیف جسٹس صاحب نے آئین پر عملددرآمد پر زور دیا اور الیکشن کے بروقت، منصفانہ اور آزادنہ انعقاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر نے آئینی عذر پیش کیا اور نئی حلقہ بندیوں بارے تبادلۂ خیال کیا۔ اس ملاقات کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ انتخابات نوے روز میں نہیں ہوں گے۔ انتخابی حلقہ بندیوں کا کام چار ماہ میں مکمل کیا جائے گا‘ حلقہ بندیاں چودہ دسمبر تک مکمل ہوں گی اور اس کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن اپنے فیصلے پر قائم رہتا ہے اور چودہ دسمبر تک نئی حلقہ بندیوں کو شائع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر دس فروری کے بعد کسی بھی دن الیکشن کی تاریخ رکھی جا سکتی ہے۔ اور اگر الیکشن فروری سے آگے گئے تو بہت سی نئی قباحتیں جنم لیں گی۔ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور آدھے سینیٹ ممبران کی مدت مارچ کے اوائل میں ختم ہو رہی ہے۔ اگرعام انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو سینیٹ کاالیکشن کیسے ہو گا؟ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیسے ہو گا؟ کیا ریاست قومی اسمبلی، چار صوبائی اسمبلیوں، صدرِ مملکت اور سینیٹ کے الیکشن نہ کرانے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیا یہ آئین اور جمہوریت کی پامالی نہیں ہو گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ کی رضامندی بھی شامل ہے ورنہ ملاقات کے اگلے ہی دن پریس ریلیز جاری نہ کی جاتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کا کیا ہو گا جس میں سپریم کورٹ سے الیکشن نئی مردم شماری پر کرانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے؟ کیا اس پٹیشن پر سماعت ہو گی؟ اور اگر ہو گی تو پھر کیا فیصلہ آ سکتا ہے؟ میری ناقص رائے میں شاید سپریم کورٹ اس مسئلے میں دخل اندازی نہیں کرے گی کیونکہ پنجاب الیکشن سے متعلق عدالتی فیصلے کی جس طرح شہباز حکومت نے حکم عدولی کی تھی‘ اس کے بعد سپریم کورٹ خود کو دوبارہ ایسی کسی صورتحال میں نہیں لے جانا چاہے گی۔ پی ٹی آئی نے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کرکے پارلیمانی سسٹم کے ساتھ ناانصافی کی تھی مگر جب اسمبلیاں تحلیل ہو ہی گئی تھیں تو نوے روز میں الیکشن ناگزیر تھے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے پاس کوئی آئینی عذر نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن اور حکومت نے الیکشن نہ کروا کر پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام سے بھی ناانصافی کی تھی۔
اولین ضرورت ہے کہ عام انتخابات آئینی میعاد کے اندر یعنی ساٹھ سے نوے روز میں ضرور ہو جانے چاہئیں۔ الیکشن کمیشن کا نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ ناقابلِ فہم ہے۔ سرِ دست بروقت اور منصفانہ الیکشن نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں سے زیادہ ضروری ہیں۔ سپریم کورٹ بار کی درخواست پر ضرور سماعت ہونی چاہیے تاکہ ابہام دور ہو سکے۔ ملک انتخابات میں چھ ماہ کی تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، ملک پر ڈیفالٹ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور ہماری غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے غیر معینہ مدت کے لیے الیکشن ہی ملتوی کر دیے ہیں۔ ایک ایسا نگران سیٹ اَپ لے آئے ہیں جو میری نظر میں ناتجربہ کار بھی ہے اور جانبدار بھی۔ ڈاکٹر شمشاد اختر، ڈاکٹر عمر سیف اور جلیل عباس جیلانی کے علاوہ کون سا ایسا وزیرہے جو اپنے کام میں مہارت رکھتا ہو؟ اچھا بزنس مین ہو نا ایک بات ہے اور ملک کے لیے بڑے معاشی فیصلے کرنا بالکل مختلف بات ہے۔ نگران وزیراعظم بہت قابل اور پڑھے لکھے ہیں مگر انہیں کتنی وزارتوں میں کام کرنے کا تجربہ ہے؟ ہے کوئی جو کسی ایک وزارت کا نام بتا سکے؟ احد چیمہ بہت قابل بیورو کریٹ رہے ہوں گے مگر کیا ان کی غیر جانبداری کی گارنٹی دی جا سکتی ہے؟ کیا پی ٹی آئی کے خلاف ان کا ذاتی غصہ ان کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو گا؟ وہ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ شہباز حکومت میں ان کے پاس جو عہدہ تھا‘ وہی نگران دور میں برقرار رکھا گیا ہے۔ کیوں؟ کیا اس کی کوئی منطق، کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا ملک میں کوئی دوسرا ریٹائرڈ قابل اور تجربہ کار بیورو کریٹ نہیں ہے؟ وصی شاہ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں‘ ان کا سیاحت سے کیا لینا دینا؟ وہ سیاحت کی وزارت کو کامیابی سے چلا سکیں گے؟ اس کابینہ پر صر ف ناتجربہ کاری کا اعتراض نہیں ہے بلکہ اس میں اکثریت ان افراد کی ہے جو پی ڈی ایم جماعتوں کے منظورِ نظر ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کابینہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230 پر پورا اتر سکتی ہے۔
الیکشن ملتوی کرنے کی ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن کے کندھوں پر نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس میں برابر کی شریک ہیں۔ اب پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہی ہے کہ الیکشن نوے روز سے آگے نہیں جانے چاہئیں۔ پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کیسی سیاست ہے؟ کیا عوام حقائق نہیں جانتے؟ اگر اسے الیکشن کے بروقت انعقاد کی اتنی ہی فکر تھی تو پھر عین آخری وقت پر مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کی منظوری کیوں دی گئی تھی؟ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس کے حق میں ووٹ کیوں دیا تھا؟ کیا اس وقت معلوم نہیں تھا کہ اگر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن ہوتا ہے تو الیکشن کم از کم چھ ماہ کے لیے ملتوی ہو جائیں گے؟ اور اگر سب کچھ پیپلز پارٹی کے علم میں تھا تو اب اس پر واویلا کرنے کا کیا جواز ہے؟ سیاسی مفادات کے لیے آئینی ادارے پر تنقید کے نشتر چلانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ وہی غلطی کیوں دہرائی جا رہی ہے جو دو سال سے پی ٹی آئی کے چیئرمین کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ اب مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کا بوجھ اٹھائے۔ الیکشن ملتوی ہوئے ہیں تو اس فیصلے میں اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرے۔ اتحادی حکومتیں محض اقتدار کا مزہ لینے کے لیے نہیں ہوتیں‘ تمام فیصلوں میں برابری کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کڑوا کڑوا تُھو تُھو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں