خان صاحب کی بڑھتی مشکلات

مثنوی مولانا روم میں وہ کہانی تو سب نے پڑھی ہو گی کہ جس میں بھیڑ گڈریے کی ہدایات پر عمل کرنا چھوڑ دیتی ہے‘ گڈریا بھیڑ کو سزا نہیں دیتا بلکہ خود رختِ سفر باندھ لیتا ہے۔ اردگرد کے لوگ گڈریے کو شہر چھوڑنے سے روکتے ہیں مگر وہ تاریخی جملہ بولتا ہے: اس قضیے میں بھیڑ کا قصور نہیں ہے بلکہ سارا دوش میرا ہے۔ میں نے نہ اس کی ٹھیک سے تربیت کی نہ اس کی سرکشی کو کبھی پہچانا۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے تو میں حقیقت سے منہ کیوں پھیروں؟ اگر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر دستخط نہیں کیے تھے تو اتنے دن تک خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟ انہیں اپنے سٹاف کی سرکشی اور مخالف سمت میں چلنے کا اندازہ کیوں نہ ہوا؟ جب پانی سر سے گزر چکا تو انہوں نے ٹویٹ کرکے اپنے سٹاف کو موردِ الزام کیوں ٹھہرایا؟ اپنا حصے کی ذمہ داری انہوں نے قبول کیوں نہ کی؟ دھوکا دہی، جھوٹ اور سرکاری امور میں ہیر پھیر سنگین اور قابل ِ تعزیر جرائم ہیں اور اگر یہ جرم ریاست کے سربراہ کے ساتھ کیے جائیں تو صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے‘ جگ ہنسائی ہوتی ہے اور ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ کیا اس کا ادراک کسی کو بھی نہیں؟
ایوانِ صدر میں جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔ کس نے کس کو دھوکا دیا یا پھر جو کچھ ہوا اس میں سب کی مرضی اور منشا شامل تھی‘ یہ عقدہ کھلنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ ملک ایک اور آئینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں آئین کا آرٹیکل75 واضح ہے۔ جب بھی کوئی بل پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدر کو موصول ہوتا ہے تو آئین صدر کو دو اختیارات دیتا ہے؛ اول: دس دن میں اس بل کو من و عن منظور کر لیں۔ دوم: اگر صدر مملکت بل سے متفق نہیں ہیں تو غلطی کی نشاندہی کریں یا اعتراض لگا کر واپس پارلیمنٹ کو ارسا ل کر دیں۔ ان دونوں میں سے ایک راستہ صدر مملکت کو بہر صورت اختیار کرنا ہوتا ہے، تیسرا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل میں لفظ May کے بجائے Shall استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں میں سے ایک راستہ اختیا رکرنا صدر صاحب پر لازم ہے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟ صدر مملکت اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں ''میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ پر سائن نہیں کیے۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت میں واپس کر دیں۔ مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ بل واپس جا چکے ہیں؛ تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اورحکم کے خلاف گیا، اللہ سب جانتا ہے، میں ان لوگوں سے معامی مانگتا ہوں جو اس سے متاثرہوں گے‘‘۔
اس میں کیا شبہ ہے کہ ہم آئینی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں اور صورتحال گمبھیر ہو رہی ہے۔ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اس معاملے کے تین پہلو نظر آتے ہیں۔ اول: صدرِ مملکت کے ساتھ ان کے سٹاف نے دھوکا کیا۔ دوم: صدر صاحب نے دانستہ طور پر دس دن گزارے اور مقررہ وقت کے بعد ٹویٹ کیا تاکہ بادی النظر میں اپنی جماعت کی ہمدردی حاصل کر سکیں۔ سوم: صدرِ مملکت کے انکار کے بعد یہ دونوں بل قانون بنے ہیں یا نہیں؟ اگر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ ان کے عملے نے جھوٹ بولا ہے اور دانستہ طور پر حقائق کو چھپایا ہے تو یہ انتہائی خطرناک امر ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیا انہیں کسی کی پشت پناہی حاصل تھی؟ صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اگر ان کے خلاف اتنی گھناؤنی سازش کی جا سکتی ہے تو پھر کون محفوظ رہے گا؟ اس کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اس عمل کو دہرا نہ سکے۔ دوسری صورتحال کا تجزیہ کرنا بہت مشکل امر ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدر اگر مذکورہ بلوں سے متفق نہیں تھے تو انہیں مقررہ مدت گزارنے کی ضرورت کیوں تھی؟ انہوں نے جب نو اگست کو تیرہ بل اعتراضات لگا کر پارلیمنٹ کو واپس بھیجے تھے تو ان بلوں کو شامل کیوں نہ کیا گیا؟ اور اگر ان کے حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا تو کیا صدر صاحب نے دس اگست کے اخبارات کا مطالعہ نہیں کیا؟ انہوں نے اس دن ٹی وی نہیں دیکھا؟ ڈاکٹر عارف علوی بہت متحرک اور حالات کی نبض کو سمجھنے والے جہاں دیدہ سیاست دان ہیں، وہ اس قدر لاعلم کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ گمان کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے دانستہ طور پر ایسا کیا تاکہ اپنی جماعت میں وہی مقام حاصل کرسکیں جو انہیں کبھی حاصل تھا۔ رہی یہ بات کہ آفیشل سیکرٹ بل قانون بنا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے‘ اب فیصلہ عدالتِ عظمیٰ کو کرنا ہے‘ مگر سردست مذکورہ دونوں بل ایکٹ کے صورت اختیارکر چکے ہیں۔ وجہ کوئی بھی ہو‘ ایک بات طے ہے کہ دس دنوں میں صدر صاحب نے کوئی فیصلہ نہیں کیا‘ اس لیے وزارتِ قانون نے اسے گزٹ میں شامل کر لیا۔ اب دیکھئے عدالت اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے؟ اگر صدرِ مملکت اپنے وکیل کے ذریعے یہ ثابت کر دیں کہ ان کے احکامات کو نظر انداز کیا گیا یا ان کے ساتھ دھوکا دہی کی گئی تو اس صورت میں اس ایکٹ کو فوری کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف صدر کے سیکرٹری وقار احمد نے صدرِ مملکت کو خط لکھ کر اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر صاحب نے دونوں بل سیکرٹری آفس کو بھجوائے ہی نہیں۔
جو لوگ اس بات پر بغلیں بجا رہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور شاہ محمود قریشی کے خلاف ایف آئی اے نے جو ایف آئی آر کاٹی ہے وہ نئے قانون کے تحت ہے تو ان کے لیے عرض ہے کہ مقدمہ 15 اگست کو درج ہوا اور قانون 19 اگست کو بنا‘ پھر کیسے نئے قانون کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ ایف آئی آر پرانے قانون کے تحت ہی ہے۔ یہ مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق پانچ، نو اور پی پی سی کی دفعہ 34 کی تحت درج کیا گیا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دونوں شقیں انتہائی خطرناک ہیں۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ کے مطابق اگر کسی شخص کے پاس کوئی دستاویز یا معلومات ہو اور وہ اس کو دشمن کے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے یا دستاویز کو اپنی تحویل یا کنٹرول میں رکھتا ہے جبکہ اسے ایسا کرنا کا حق نہ ہو یا جب اسے اپنے پاس رکھنا اس کے فرائض کے خلاف ہو‘ مذکورہ شخص کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اب سیکشن پانچ میں مزید ترمیم کرتے ہوئے ایسی معلومات یا دستاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کا تعلق کسی ممنوعہ علاقہ یا امن اور جنگ کے دوران مسلح افواج کی سرگرمیوں سے ہو۔ دوسری طرف سیکشن نو میں لکھا ہے کہ جرم پہ اکسانے، سازش کرنے یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر ویسی ہی سزا دی جائے گی۔ سیکشن پانچ اور نو کی زد میں آنے والے شخص کو چودہ سال تک قید یا موت کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ پی پی سی کی دفعہ 34 بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شق نو سے مماثلت رکھتی ہے۔
قانونی ماہرین سمجھے ہیں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق پانچ کی زد میں چیئرمین پی ٹی آئی آئیں گے اور شق نو کا اطلاق شاہ محمود قریشی پر ہو گا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سپیشل عدالت کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔ ایک ماہ کے اندر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ سائفر گمشدگی میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کا کوئی کردار تھا یا نہیں؟ اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین بھی کیا جائے گا۔ آنے والے دن پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین کی مشکلات کو دوچند کریں گے۔ مجھے آج بھی یقین نہیں آتا کہ اتنے جہاں دیدہ اور تجربہ کار سیاستدان اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا خان صاحب کو روکنے والا پوری پی ٹی آئی میں کوئی نہیں تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں