الیکشن کو تماشانہ بنائیں

آئینِ پاکستان کو تشکیل پائے پچاس برس بیت چکے ہیں مگر آئین کی پامالی کا سفر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ میں جب بھی سیاست دانوں، حکمرانوں اور اربابِ بست و کشاد کو آئین سے ماورا اقدام کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے عطاء الحق قاسمی کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے:
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
ویسے تو پچاس برس میں سینکڑوں ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جب آئین کی پاسداری نہیں کی گئی مگر جو بے توقیری گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوئی‘ اس کی نظیر کسی جمہوری دور میں نہیں ملتی۔ جس کا جو من چاہا‘ وہ کیا گیا مگر آئین پر عمل نہیں کیا گیا۔ دو روز قبل اسی ضمن میں ایک انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آئی جب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھ کر الیکشن کی تاریخ پر مشاورت کرنے کے لیے مدعو کیا۔ صدر صاحب کا مؤقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی سب کلاز پانچ کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے اس لیے چیف الیکشن کمشنر مشاورت کے لیے ایوانِ صدر تشریف لائیں تاکہ اس معاملے پر پیش رفت ہو سکے مگر افسوس‘ صد افسوس کہ چیف الیکشن کمشنر نے نہ صرف ملاقات کرنے سے انکار کر دیا بلکہ جوابی خط میں لکھا کہ میں صدر صاحب سے مشاورت نہیں کر سکتا کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم ہو چکی ہے اور اب الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کے بجائے الیکشن کمیشن کو حاصل ہو گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 48 کی سب کلاز پانچ کے تحت صدر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار اسی وقت ہے جب اسمبلی آرٹیکل 58(2) کے تحت تحلیل ہو۔ گزشتہ اسمبلی چونکہ آئین کے آرٹیکل 58(1) کے تحت تحلیل ہوئی لہٰذا صدر کا یہ اختیار ساقط ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ مؤقف کیوں اختیار کیا اور یہ کہ آئین کے آرٹیکل 58(1) اور 58(2) میں ایسا کیا مرقوم ہے کہ صدرِ مملکت کا اختیار ہی ختم کیا جا رہا ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 58(1) کہتا ہے کہ وزیراعظم صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری ارسال کرے گا، صدر اس پر دستخط کریں گے تو اسمبلی فوری تحلیل ہو جائے گی اور اگر نہیں کریں گے تو اڑتالیس گھنٹوں کے بعد یہ تجویز خود بخود نافذ العمل ہو جائے گی۔ جبکہ 58(2) میں لکھا ہے کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے اور کوئی پارٹی وزیراعظم بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی تو صدر اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔ میری دانست میں الیکشن کمیشن کا موقف کمزور ہے۔ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ صدر کا نوے روز میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار آرٹیکل 58(2) کے ساتھ نتھی ہے؟ صدرِ مملکت آئین کاحوالہ دے رہے ہیں اور الیکشن کمیشن پارلیمانی قانون کی بات کر رہاہے۔ آئین بہرطور قانون سے مقدم ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 48 کی سب کلاز پانچ واضح ہے‘ جس میں صریحاً لکھا ہے کہ اگر صدر اسمبلی توڑے گا تو نوے روز میں الیکشن کی تاریخ دے گا، پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسمبلی توڑنے کی سمری وزیراعظم نے بھیجی یا صدر نے ازخود اسمبلی تحلیل کی؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں آئین واضح ہے اور اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
میری دانست میں چیف الیکشن کمشنر نے صدرِ مملکت سے ملاقات نہ کر کے ریاست کے سربراہ کی تضحیک کی ہے۔ انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایک لمحے کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا موقف درست ہے‘ تو بھی ریاست کے سربراہ اور سب سے اہم آئینی عہدیدار سے ملاقات کرنے میں کیا قباحت تھی؟ چیف الیکشن کمشنر نے جو باتیں اپنے جوابی خط میں درج کی ہیں‘ وہ بالمشافہ بھی تو کی جا سکتی تھیں؟ قبل ازیں الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے دو گھنٹے تک مشاورت کی، کیا آئین نے ان کو ایسا کرنے کا پابند کیا تھا؟ یقینا نہیں‘ مگر پھر بھی وہ مشاورت کرنے گئے۔ کیوں؟ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی، جے یو آئی (ایف)، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مشاورت کے لیے مدعو کرسکتے ہیں مگر صدرِ مملکت سے ملاقات کے لیے ان کے پاس وقت ہے نہ یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ چیف الیکشن کمشنر کا یہ اقدام کسی طور مناسب نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل 48 اور سپریم کورٹ کے فیصلے صدر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا پابند کرتے ہیں۔ سب کو یاد ہو گا کہ پی ٹی آئی نے رواں سال جنوری میں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کیں تو دونوں صوبوں کے گورنرز الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہے تھے‘ جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو الیکشن لیا اور یکم مارچ 2023ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اکثریتی رائے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن بارے فیصلے میں کہا کہ ''اگر کسی صوبے میں صوبائی اسمبلی کو گورنر کے حکم پر تحلیل کیا گیا ہو تو اس صورت میں آئین کے آرٹیکل 105(3)A کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کی ذمہ داری گورنر نے ادا کرنا ہے‘ اگر کسی صوبے میں صوبائی اسمبلی کو گورنر کے حکم پر تحلیل نہ کیا جائے تو اس صورت میں 2017ء کے الیکشن ایکٹ کے مطابق صوبے میں الیکشن کی تاریخ دینے کی ذمہ داری صدرِ مملکت نے ادا کرنا ہے (اب الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری سے 26 جون سے یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کو سونپ دی گئی ہے)۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے کہا گیا کہ یہاں عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی ذمہ داری صدرِ مملکت کو ادا کرنا تھی کیونکہ گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی تھی‘‘۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ صوبے میں گورنر کی وہی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو وفاق میں صدر کے پاس ہوتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر گورنر نے اسمبلی تحلیل کی تھی اسی لیے سپریم کورٹ نے گورنر کو حکم دیا تھا کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں اور جو تاریخ صدرنے دی تھی اسے کالعدم کر دیا گیا تھا۔ پنجاب میں معاملہ الٹ تھا۔ گورنر نے وزیراعلیٰ کی سمری کی توثیق نہیں کی تھی اس لیے سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت صدر کو تاریخ دینے کا حکم دیا۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر وزیراعظم کی سمری پر صدر دستخط نہ کرتے تو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت الیکشن کمیشن (ترمیم کے بعد) انتخابات کی تاریخ دینے کا مجاز ہوتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صدر صاحب نے وزیراعظم کی سمری پر دستخط کر دیے تھے لہٰذا یہ اب صدر ہی کا اختیار ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ ابھی پلوں کے نیچے سے زیادہ پانی نہیں گزرا، اب بھی وقت ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صدرِ مملکت سے ملاقات کریں اور معاملے کو افہام و تفہیم سے سلجھائیں۔ اسی میں سب کی بہتری ہے اور آئینی معاملہ بھی مزید الجھنے سے بچ جائے گا۔ الیکشن کمیشن یا تو صدرِ مملکت کو قائل کر لے یا خود ان کے موقف سے متفق ہو جائے۔ صدر صاحب کے بھی علم میں لایا جائے کہ کیسے شہباز حکومت جاتے جاتے الیکشن کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا کر گئی۔ کیسے حکومت ختم ہونے سے ایک ہفتہ قبل مردم شماری کو نوٹیفائی کیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کے تحت الیکشن کمیشن کو الجھا دیا گیا کہ وہ انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں کرے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ معاملہ مزید الجھا اور سپریم کورٹ تک پہنچا تو ایک بار پھر جگ ہنسائی کاسبب بنے گا۔ آئینی و قانونی طور پر اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ صدرِ مملکت کے آئینی حق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا کہا جائے۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ صدر صاحب کا آئینی اختیار ہے اور آئین کے آرٹیکل 58(2) کے تحت ان کے آزانہ اختیار پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں