بھارت سعودی عرب سے کیا چاہتا ہے؟

جتنی مہنگائی ہو چکی ہے‘ عوام کو اب حکمرانوں سے کوئی امید نہیں کیونکہ وہ اپنے ترکش کے سارے تیر ایک ایک کرکے عوام کے سینے میں اتار چکے ہیں۔ عام آدمی کا جرم کیا ہے سوائے اس کے کہ اس نے آزاد فضا میں سانس لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ ایک‘ دو برس کی بات نہیں ہے پون صدی کا قصہ ہے۔ ایک حکمران بھی ایسا نہیں آیا جس نے عوام کے زخموں پر مرہم رکھا ہو۔ ایک بحران سے جان نہیں چھوٹتی کہ دوسرا سر اٹھانے لگتا ہے۔ ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اپنے ہونے کا احساس دلانے لگتا ہے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت‘ اب ہر جگہ تباہی ہماری منتظر ہے۔ منیر نیازی یاد آتے ہیں:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس بار جو بجلی کے بل آئے ہیں‘ اس میں نگران سرکار کا کوئی دوش نہیں ہے۔ یہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی حکومتوں کا 'کارنامہ‘ ہے، مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی‘ تینوں جماعتیں ان بلوں کو عوام پر ظلم قرار دے رہی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران بڑھتے جا رہے ہیں۔ کبھی سٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی ہے اور کبھی ڈالر بے قابو ہو جاتا ہے۔ کبھی آٹے کا بحران اور کبھی چینی نایاب۔ پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتوں اور بجلی کے بلوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ایک طرف ہماری بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہو رہیں اور دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ممالک تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ وہ جدید دنیا کے ہم قدم ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے صنعتی میدان میں وہ کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ جو ہم صلاحیت و سکت کے باوجود نہیں کر پا رہے، کیوں؟ کیا کبھی ہم نے اس ''کیوں‘‘ کا جواب تلاش کرنے کی جستجو کی ہے؟ افغانستان میں مہنگائی نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم 29 فیصد کی شرح پر پرواز کر رہے ہیں۔ رہا بھارت‘ تو وہ ہم سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بھارت اور پاکستان کی ترقی کی کہانی کچھوے اور خرگوش جیسی ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہماری معاشی گروتھ بھارت سے بہت بہتر تھی مگر پھر ہم خوابِ غفلت کے مزے لینے لگے اور بھارت چاند پر پہنچ گیا۔ پہلی بار نہیں‘ تیسری بار۔ اب بھارت میں جی ٹونٹی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کا شمار دنیا کی طاقتور ترین معاشی تنظیموں میں ہوتا ہے۔ بھارت اس کا ممبر ہے اور آٹھ سے دس ستمبر کو دہلی میں ہونے والی اس کانفرنس سے بھارت مزید ابھر کر سامنے آئے گا۔ یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ چند روز قبل بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستان سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ ''ناکام لوگوں کے متعلق کوئی بات کرنا پسند نہیں کرتا‘‘۔ مجھے بھارتی وزیرخارجہ کی اس ہرزہ سرائی پر شدید غصہ آیا اور میں جذباتی ہو گیا مگر جب خود کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھا تو حقیقتِ حال سامنے آ گئی۔ سچ یہی ہے کہ معیشت کے میدان میں ہمارا بھارت سے اب کوئی مقابلہ نہیں۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور چند سال بعد تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ بھارتی جی ڈی پی کا حجم 3500 ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر چھ سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں بھارت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کی نظریں بھارت پرلگی ہوئی ہیں اور سعودی عرب بھی ان ممالک میں شامل ہے۔
سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد محمد بن سلمان گیارہ ستمبر کو بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ جہاں بہت سے معاشی اور تجارتی معاہدے متوقع ہیں‘ وہیں اہم بات یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کا گزشتہ چار سال میں یہ بھارت کا دوسرا دورہ ہے۔ شنید ہے کہ بھارت جانے سے پہلے وہ چند گھنٹوں کے لیے پاکستان بھی آئیں گے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی ولی عہد کا دورۂ پاکستان پائپ لائن میں تھا مگر یہ دورہ نگران حکومت کے دور میں کیوں ہو رہا ہے‘ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ نگران حکومت کے پاس نئے معاشی اور تجارتی معاہدے کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں‘ لہٰذا اس چند گھنٹوں کے دورے کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ دورہ ہونا ہی تھا تو ایک ماہ پہلے یا چند ماہ بعد کیوں نہیں‘ جب منتخب حکومت برسر اقتدار ہوتی۔ سعودی ولی عہد کے اس متوقع دورے سے 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ پاکستان کی یاد تازہ ہو گئی جو محض پانچ گھنٹوں کے لیے پاکستان آئے تھے مگر پھر اٹک قلعے میں قید سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی مشکلات حل ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ سعودی عرب چلے گئے تھے جہاں سرور پیلس ان کا منتظر تھا۔ کہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی رہائی کے لیے بھی تو کوئی راہ نہیں نکالی جا رہی؟ کہیں سابق وزیراعظم بھی کسی ڈیل کے منتظر تو نہیں؟ اپنا ہی ایک شعر یاد آ رہا ہے:
دھرنوں سے کیا ملے گا لیجئے حضور پیلس
ہے منتظر تمہارا پھر سے سرور پیلس
عین ممکن ہیں یہ سب خام خیالی ہو اور سعودی ولی عہد بھارت جانے سے قبل محض خیر سگالی کے طور پر اسلام آباد آ رہے ہوں تاکہ پاکستان کو ان کے دورۂ بھارت پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ ایک بات ہمیں تسلیم کرنا پڑے گی کہ اب ورلڈ آرڈر تبدیل ہو چکا ہے۔ دو ملکوں کی دوستی اور دشمنی کا انحصار اب معیشت پر ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو قبول کر رہا ہے۔ تاریخی طور پر سعودی عرب اور بھارت کے سیاسی اور معاشی تعلقات اتنے مثالی نہیں رہے‘ بھارت ایران اور قطر کا اتحادی رہا ہے جن کے سعودی عرب سے تعلقات سردمہری کا شکار رہے۔ سعودی عرب کا ہمیشہ سے اتحادی پاکستان رہا ہے اور دونوں برادر ممالک میں دیرینہ معاشی، سیاسی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی جو مخاصمت ہے‘ وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور بھارت کبھی اتنے قریب نہیں آ سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت سعودی عرب سے تعلقات استوار کرنے کے لیے ایران اور قطر سے تعلقات کی قربانی دیدے گا اور کیا سعودی عرب بھارت سے بندھن باندھنے کے لیے پاکستان کو نظر انداز کر دے گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں‘ مگر حالات و واقعات اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اب دونوں ممالک کے تعلقات تاجر اور صارف سے بڑھ کر دوستانہ ہونے جا رہے ہیں۔ بھارت سعودی عرب سے تین شعبوں میں مدد چاہتا ہے۔ اول: بھارت کی خواہش ہے کہ اس کے شہریوں کو سعودی عرب میں مزید نوکریاں دی جائیں۔ اس وقت بائیس لاکھ بھارتی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں اور اپنے ملک کو کثیر ترسیلاتِ زر بھیج رہے ہیں۔ دوم: بھارت اپنی ضرورت کا ایک چوتھائی تیل سعودی عرب سے خریدتا ہے، وہ یہ تیل سستے نرخوں پر خریدنے کی خواہش رکھتا ہے۔ سوم: سرمایہ کاری۔ سعودی عرب کے پاس ایک کھرب ڈالر سے زائد کے فنڈز سرمایہ کاری کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے بھارت اپنی ابھرتی ہوئی معیشت میں سعودی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے تاکہ اسے ترقی کی اگلی منزلوں تک پہنچا سکے۔ سعودی وزیراعظم محمد بن سلمان کے وژن 2030ء کے مطابق سعودی عرب نے اپنی معیشت کا انحصار تیل کی پیداوار پہ کم سے کم کرنا ہے کیونکہ سعودی عرب کے پاس تقریباً 266 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں اور اگر وہ اسی طرح تیل نکالتا رہا تو ستر سال بعد یہ ذخائر بالکل ختم ہو جائیں گے، اس لیے اب وہ معیشت پر خاص توجہ دے رہا ہے۔ سعودی عرب بھارت سے چار شعبوں میں مدد چاہتا ہے۔ اول: اسے آئی ٹی کے شعبے میں مدد درکار ہے۔ دوم: صنعت، سوم: زراعت اور چہارم: سعودی عرب چاہتا ہے کہ بھارت اپنی تیل کی خریداری میں سعودی تیل کی شرح بڑھائے۔
ہمیں سعودی عرب اور بھارت کے بڑھتے تعلقات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنی چاہئیں تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے اور زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ اگر ترقی کرنی ہے تو ادھار کی دکان بند کر کے صنعت و زراعت پر توجہ دینا ہو گی۔ برآمدات بڑھانے ہی میں ہماری بچت ہے ورنہ ڈیفالٹ کے خطرات ہمیشہ ہمارے سروں پر منڈلاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں