ایسا نہ ہو حالات قابو سے باہر ہو جائیں

خلیل جبران کا قول ہے ''جو عرفان کے سانپ سے نہیں ڈسا جاتا اور جہالت کے بھیڑیوں کا شکار نہیں بنتا‘ اسے شب و روز کا زہر پلایا جاتا ہے‘‘۔ ہمارا المیہ اُلٹ ہے۔ ہمیں آج تک ہر سانپ نے ڈسا ہے‘ ہر بھیڑیے نے شکار کیا ہے اور جس کا بس چلا ہے اس نے شب و روز کا زہر بھی پلایا ہے۔ ایسے ہی ہنستا بستا اور ترقی کرتا ملک کھنڈرات کا منظر نہیں پیش کر رہا۔ کبھی کبھی ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہلاکو خان یا امیر تیمور کی فوجو ں کا یہاں سے گزر ہوا ہے‘ ورنہ اتنی جلدی ایسی تباہی آنا ممکن نہ تھا۔ کون سا شعبہ ہے جہاں تنزلی کے آثار نمایاں نہیں ہیں؟ کون سا محکمہ ہے جہاں بربادی نے پنجے نہیں گاڑے ہوئے اور کون سا ادارہ ہے جس کی سمت درست ہے؟ چاروں اور بربادی ہی بربادی ہے‘ تباہی ہی تباہی ہے اور تنزلی ہی تنزلی ہے۔ کس کس کا رونا روئیں؟ کس کس کا واویلا کریں؟
ملک میں اس وقت چار بڑے مسائل ہیں اور باقی مسائل انہی کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔ گرتی معیشت، الیکشن کا التوا، سیاسی عدم استحکام اور عوام میں نفرت کا رچ بس جانا۔ یہ سارے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کے حل بارے سنجیدہ ہیں تو ایک ساتھ ان کا علاج کرنا ہو گا۔ نگران حکومت، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں، عوام اور ہر اُس شخص کو‘ جو طاقت اور اختیار رکھتا ہے‘ ادراک کرنا ہو گا کہ معیشت کتنی تیزی سے پاتال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روپے کی گراوٹ ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام برپا ہے اور ہر کوئی بے یقینی کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔ عام آدمی سے لے کر بڑی کاروباری شخصیات تک‘ سبھی آنے والے کل سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ہر کوئی ڈالر سمیٹنے کی کوشش میں مگن ہے اور جس کا نتیجہ روپے کی بے قدری کی صورت میں نکل رہا ہے۔ دوسری طرف ڈالر کی سمگلنگ ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ ڈالر دھڑا دھڑ افغانستان سمگل کیے جا رہے ہیں۔ ادارے تمام تر کوششوں کے باوجود اس سمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہیں۔ ڈالر کی سمگلنگ مارکیٹ میں بے یقینی کی فضا کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ ہمارے حکام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کا طوفان آتا ہے جو متوسط طبقے اور مڈل کلاس کو بہا کر لے جاتا ہے۔ پٹرول، ڈیزل، گیس، کوئلہ، بجلی، کوکنگ آئل، دالیں، گندم، ادویات، صنعتو ں کی مشینری، موبائل فون اورگاڑیاں‘ غرض کون سی چیز ہے جو ہم درآمد نہیں کرتے؟ اگر روپیہ گراوٹ کا شکار ہو گا تو مذکورہ بالا تمام اشیا خود بخود مہنگی ہو جائیں گی۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ایسے ہی تین سو سے تجاوز نہیں کر گئیں، بجلی کے بلوں نے یونہی عوام کا جینا محال نہیں کر دیا، اس میں سب سے بڑا ہاتھ روپے کی بے قدری کا ہے۔ اگر ہم نے مہنگائی کا راستہ روکنا ہے تو فی الفور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی بند کرنا ہو گی اور سمگلنگ کا راستہ روکنا ہو گا۔ اس سے روپیہ مضبوط ہو گا اور عام آدمی کو براہِ راست ریلیف مل سکے گا۔ روپے کی قدر بڑھانے کا یہ شارٹ ٹرم طریقہ ہے، جبکہ لانگ ٹرم پالیسی بھی ناگزیر ہے اور وہ برآمدات میں اضافے، سرمایہ کاری کے فروغ اور ترسیلاتِ زر کو بڑھائے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم‘ دونوں پالیسیوں پر کام کرنا ہو گا ورنہ کرنسی فری فال میں چلی جائے گی اور پھر ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ اس وقت درجن بھر ممالک میں کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے احتجاج ہو رہے ہیں کیونکہ ان ممالک میں مہنگائی بے لگام ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے ہاں بھی حالات بے قابو ہوں‘ ڈالر کی پرواز کو روکنا ہو گا۔
معیشت کی بدحالی میں روپے کی گراوٹ ہی واحد مسئلہ نہیں ہے۔ ہر روز نیا مسئلہ سر اٹھاتا ہے اور ہم اسے بغیر حل کیے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بجلی کے بلوں کے باعث اٹھنے والا طوفان ابھی تھما نہیں تھا کہ چینی کی قیمتوں نے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار چینی کی قیمت نے ڈبل سنچری مکمل کی ہے۔ چینی کا بڑے شہروں میں اور ریٹ ہے اور چھوٹے شہروں میں اور۔ دور دراز علاقوں میں چینی 235 روپے فی کلو تک میں فروخت ہو رہی ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ نے قیمتوں کو بے لگام کر دیا ہے مگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست اور الزام تراشی میں مگن ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ پی ڈی ایم حکومت میں پیپلز پارٹی کے وزیرِ تجارت سید نوید قمر کے اصرار پر چینی برآمد کی گئی‘ اس فیصلے نے بحران کو جنم دیا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ فیصلہ ای سی سی اور کابینہ میں ہوا تھا اس میں نوید قمر اکیلے قصوروار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کو چینی کی سمگلنگ کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں چینی کے مسئلے پر سیاست کر رہی ہیں اور ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کیا جا رہا ہے۔ اقتدار کے جھولے میں دونوں جماعتیں مزے لیتی رہی ہیں اور اب جب اقتدار ہاتھ سے چلا گیا ہے تو پھر سے 1990ء کی دہائی کی سیاست کو دہرایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی اس وقت ملک میں وافر مقدار میں چینی موجود تھی مگر اب ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے باعث صورتحال بہت بگڑ چکی ہے جبکہ حکام چینی مافیا کو لگام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
ملک میں اس وقت افراتفری، بے یقینی اور عدم استحکام کی صورتِ حال اس لیے ہے کہ الیکشن کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ کس نے انتخابات کی تاریخ دینی ہے‘ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے۔ ہر طرف ابہام اور کنفیوژن ہے۔ آئین کے آرٹیکل 48 کی سب کلاز پانچ میں واضح لکھا ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے تو وہ نوے روز میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آرٹیکل 58(1) کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری وزیراعظم نے بھیجی یا پھر صدر نے آئین کی شق 58 کی سب کلاز 2 کے تحت ازخود اسمبلی کو تحلیل کیا۔ آئین میں آرٹیکل 58(1) اور 58(2) کی اگر‘ مگر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن اور مسلم لیگ (ن) بلاوجہ اس سیدھے سادے معاملے کو الجھا رہے ہیں۔ ہاں البتہ! صوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکشن کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن نے کرنا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 57 میں ترمیم ہو چکی ہے اور اب صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو سونپ دیا گیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہوتی یا صدر صاحب نے وزیراعظم کی سمری پر دستخط نہ کیے ہوتے تو پھر انتخابات کی تاریخ دینے کا مجاز الیکشن کمیشن ہی ہوتا۔ اتنی سی بات ہے جو الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو سمجھ نہیں آ رہی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ صدر صاحب گزشتہ ہفتے دو بار الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے لگے تھے مگر پھر دو ملاقاتوں میں انہیں سمجھایا گیا کہ ایسا کرنے سے گریز کریں۔ ملک دو بار الیکشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن ایک ہی بار ہوں گے۔ یوں گما ن ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت نے یہ تجویز مان لی ہے اسی لیے تاحال الیکشن کی تاریخ کااعلان نہیں کیا گیا۔ انتخابات میں تاخیر سے بے چینی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور عوام کے دلوں میں نفرت کا جو بیج بو دیا گیا ہے‘ وہ جڑیں نکال رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں‘ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے۔ بھلے الیکشن جنوری کے اواخر یا فروری کے اوائل میں ہوں مگر عوام کی تسلی لیے تاریخ کا اعلان ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ نفرت کی چنگاری بھڑک اٹھے اور پھر حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں