گیم سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے

ہماری سیاست کا چلن عجیب ہے۔ کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حریف کل کے حلیف بن جاتے ہیں۔ سیاست کبھی نظریات اور اصولوں کے تابع ہوتی تھی مگر اب مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ جیسے ہی مفادات بدلتے ہیں یا مفادات پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں تو دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست کا روپ دھار لیتے ہیں۔ قلق میرٹھی یاد آتے ہیں:
تُو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تُو نہیں اور سہی‘ اور نہیں اور سہی
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان لفظی جنگ جاری ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ دونوں جماعتوں کا ماضی بہت تلخ رہا ہے، اور پھر اگلا الیکشن بھی ایک دوسرے کے مقابل لڑنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری سے مختلف لائن کیوں لے رہے ہیں؟ یا پھر بلاول بھٹو اپنے والد گرامی آصف علی زرداری کے سیاسی نظریات کے تابع کیوں نہیں رہے؟ اس شکوہ‘ جوابِ شکوہ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ بلاول بھٹو نے دبئی سے واپس آتے ہی الیکشن کمیشن اور اداروں کو ہدفِ تنقید بنایا اور نوے روز میں الیکشن کا مطالبہ کیا۔ بلاول نے الیکشن کمیشن کے کردار پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ یہی نہیں‘ پی پی پی چیئرمین نے دیگر قوتوں کو بھی پیغام دیا کہ وہ کٹھ پتلیاں بنانا چھوڑ دیں اور عوام کو ان کا فیصلہ کرنا دیں۔ اس بیان کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اس بیان سے بالکل مختلف لائن لے لی‘ کیوں؟ زرداری صاحب نے الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے باقی چاروں ممبرز پر بھی اعتماد کا اظہارکیا اور نوے دن میں الیکشن کا مطالبہ تک نہیں کیا۔ کیوں؟ زرداری صاحب نے برملا کہا کہ الیکشن نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی ہونے چاہئیں۔ بہت سے حلقے اس صورتحال پر یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ کیا باپ بیٹے میں سیاسی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں؟ بلاول بھٹو سے جب یہ سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھاکہ سیاسی معاملات میں سابق صدر کا نہیں‘ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا پابند ہوں۔ بظاہر اس سے اختلافات کا تاثر ابھرتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ باپ بیٹا اپنی اگلی سیاسی اننگز میں ''گڈ کاپ اور بیڈ کاپ‘‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ ایک طرف الیکشن کا بگل بج چکا ہے اور دوسری طرف سندھ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کے قریبی ساتھیوں کے نام سٹاپ لسٹ میں ڈال دیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی ادارے گزرے پندرہ سال میں کراچی کی تباہی کے ذمہ داران تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں جو اس وقت ڈالر مافیا، سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، چینی مافیا اور بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے‘ سندھ کے معاملات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس بات کاکھوج لگایا جا رہا ہے کہ سندھ میں کرپشن، زمینوں پر قبضوں، لاقانونیت اور بھتہ خوری کے پیچھے کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بہت سے اکابرین ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور ان کی واپسی کے تاحال کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ ان معاملات کے حوالے سے اندرونی خبر کی جانکاری رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ زرداری صاحب کو بھی ملک سے باہر جانے کا کہا گیا تھا اور اسی لیے وہ دبئی چلے گئے تھے مگر اب دونوں باپ بیٹا ایک منصوبہ بندی کے تحت واپس آئے ہیں۔ بلاول بھٹو سیاست کریں گے اور زرداری صاحب مفاہمت۔ بلاول عوام میں پارٹی کی جڑیں مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے اور زرداری صاحب اداروں سے تعلقات بہتر بنائیں گے۔ بلاول بھٹو شعلہ بیانی سے کام لیں گے اور زرداری صاحب آگ پر پانی ڈالنے ڈالیں گے۔ دونوں باپ بیٹا وہی کام کریں گے جو شریف برادران گزشتہ تیس برس سے کرتے آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف عوامی مقبولیت کے لیے ہر کسی سے لڑائی لڑتے رہے ہیں اور شہباز شریف مفاہمت کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ یہ نسخہ دونوں بھائیوں کی سیاست کا اہم جُز رہا ہے۔ اگر اب پیپلز پارٹی بھی اسی راہ کی مسافر بن گئی ہے تو تعجب کیسا؟ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
آئندہ چندہ ہفتوں میں ایسی ہی دلچسپ صورتحال آپ کو مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف واپسی پر سب سے پہلے اپنے بھائی شہباز شریف کی سولہ ماہی حکومت کو ہدفِ تنقید بنائیں گے اور پھر شاہد خاقان عباسی کی حکومت سے اظہارِ لاتعلقی کریں گے۔ وطن واپسی پر میاں صاحب اپنے پہلے خطاب میں شہباز دور میں ہونے والی معیشت کی بربادی، مہنگائی، روپے کی گراوٹ، زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی، کاروبارکی تباہی، گروتھ ریٹ میں کمی اور قرضوں کی بھرمار کا رونا روئیں گے اور پھر عوام کو کہیں گے کہ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی حکومتیں میری نہیں تھیں۔ میری حکومت صرف 2013ء سے 28 جولائی 2017ء تک تھی۔ اگر مجھ سے حساب لینا ہے تو اس دور کا لیں۔ اگر میرا محاسبہ کرنا ہے تو ان چار برس کی بات کریں۔ نواز شریف صاحب عوام کو کہیں گے کہ میرے دور کی معیشت، گروتھ ریٹ، مہنگائی کی شرح، زرمبادلہ کے ذخائر، قرضوں کی صورتحال، پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتیں یاد کریں۔ اس وقت صورتحال کیا تھی اور آج کیا ہے؟ وہ ملک میں بجلی کے کارخانے لگانے، موٹر ویز بنانے، کراچی کا امن لوٹانے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنے کا کریڈٹ لیں گے۔ یہی نہیں‘ نواز شریف صاحب احتساب کا نعرہ بھی لگائیں گے۔ یہی ان کا انتخابی منشور ہو گا۔ میاں نواز شریف کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو بعض غیر سیاسی شخصیات نے استعمال کیا اور نتیجتاً ملک معاشی طور پر تنزلی کا شکار ہوا۔ اس لیے ان سب کا احتساب بہت ضروری ہے ورنہ ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ بااثر حلقوں نے میاں صاحب کو پیغام بھیجا کہ وہ احتساب کے مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں مگر میاں صاحب نے ایساکرنے سے انکار کر دیا۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتی کشیدگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست بہت بے رحم چیز ہے۔ اپنے پرائے کا خیال رکھتی ہے نہ اچھے برے کا لحاظ۔ کل تک جو جماعتیں ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھیں، یک جان دو قالب کی مثال تھیں، آج ایک دوسرے سے ایسے گتھم گتھا ہیں جیسے پانی پت کی لڑائی کا منظر۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات محض دکھاوا ہیں۔ یہ صرف الیکشن لڑنے کے لیے عوام کو ایک دوسرے کا مخالف ہونے کا تاثر دے رہے ہیں‘ ورنہ دونوں جماعتوں میں یہ طے پا چکا ہے کہ عام انتخابات کے بعد دوبارہ مخلوط حکومت بنائی جائے گی۔ یہ لڑائی صرف وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ دونوں جماعتوں کے اکابرین نے فیصلہ کیا تھا کہ وزیراعظم اسی جماعت کا ہو گا‘ جس کی سیٹیں زیادہ ہوں گی اور دوسری جماعت کابینہ میں اتحادی بنے گی۔ دونو ں جماعتوں کو یہاں یہ خیال کرنا ہو گا کہ ان کی لڑائی کا فائدہ کوئی اور نہ اٹھا لے۔ عوام کو صرف معاشی ریلیف چاہیے، مہنگائی سے چھٹکارا، معیشت کی بحالی اور کاروبار کے بہترین مواقع چاہئیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ کام کوئی سیاسی حکومت کرتی ہے یا نگران حکومت۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ نگران حکومت معاشی حالات بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے‘ سوچئے پھر کیا ہو گا؟ جس طرح مافیاز، سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کی بات کی جارہی ہے‘ اگر یہ سب کچھ کامیابی سے ہو جاتا ہے تو پھر معاشی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اتنی سی بات ہے جسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو سمجھنا ہے۔ اگر انہوں نے یہ موقع ضائع کر دیا تو حالات بدل بھی سکتے ہیں اور سیاست کی گیم سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں