عالمی سیاست و معیشت اور بھارت

کیا ستم ہے کہ ہم آج بھی ان مسائل میں الجھے ہیں جو ہمارے ہمسایے دہائیوں پیچھے چھوڑ چکے۔ بھارت جی 20 کانفرنس کی میزبانی کر چکا اور ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے۔ بھارت چاند کو تسخیر کرنے والا چوتھا ملک بن چکا ہے اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار صدرِ مملکت کا ہے یا الیکشن کمیشن نے تاریخ دینی ہے؟ آئینی طور پر انتخابات نوے روز میں ہونا ضروری ہیں یا حلقہ بندیاں زیادہ اہم ہیں؟ بھارت سورج پر تحقیق کے لیے مشن روانہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اورہم یہ مباحثہ کرنے میں مگن ہیں کہ میاں نواز شریف کب واپس آئیں گے؟ صدرِ مملکت کی آئینی مد ت پوری ہونے کے بعد ان کی حیثیت کیا ہے؟ کیا ان کے اختیارات اب عبوری صدر کے ہوں گے؟ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے اور تیسری بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہے جبکہ ہمیں یہ ہی معلوم نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں؟ پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہو گا؟پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اچانک لڑائی اور بیان بازی کیوں شروع ہو گئی؟ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں بطور قوم احساسِ زیاں تک نہیں ہے۔ ہم پچھتر سالوں کی رائیگانی پر نادم تک نہیں ہیں۔ عوام آج بھی اشرافیہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور ملک کی زبوں حالی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کا جنم ایک ساتھ‘ ایک ہی دن ہوا تھا۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ بھارت نے ترقی کی منزلیں کیسے طے کر لیں اور ہم آج بھی ہر میدان میں رینگ کیوں رہے ہیں؟ کیا ہمیں ادراک ہے کہ بھارت کے جی ڈی پی کا حجم کیا ہے؟ اس کے زرِمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں؟ بھارت کی برآمدات میں کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے؟ آئی ٹی، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں وہاں کتنی جدت آ چکی ہے؟ اگر نہیں معلوم تو جان لیں کہ بھارت کے جی ڈی پی کا حجم 3.3 ٹریلین یعنی 3300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ گزشتہ سال بھارتی برآمدات کا حجم 760 ارب ڈالر تھا۔ بھارت کے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت 603 ارب ڈالر ہیں۔ بھارت کا آئی ٹی کا شعبہ پوری دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے، اس کے محض آئی ٹی کے شعبے کا حجم دو سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور وہاں ترقی کی شرح سات فیصد ہے۔ ان تمام شعبوں میں ہمارے اعداد و شمار ایسے ہیں کہ انہیں لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ ابھی سارا پانی پلوں کے نیچے سے نہیں گزرا۔ دیر ضرور ہو گئی ہے مگر اتنی بھی نہیں ہوئی کہ ازالہ نہ کیا جا سکے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا چلن ٹھیک کر لیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک کو گرانا چھوڑ دیں، ہرشعبے میں موجود مافیاز کو لگام ڈالیں، ہر شعبے میں ہونے والی سمگلنگ کا قلع قمع کریں، ذخیرہ اندوزوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں، کرپشن کے ناسور کو ہمیشہ کے لیے ختم کریں۔ زراعت، صنعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور آئی ٹی پر توجہ دیں۔ ملک بھر میں معاشی اصلاحات لائیں اور ڈالر خرچ کر کے روپے کمانا چھوڑ دیں۔ ملک خود بخود ترقی کرنے لگے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کرے گا کون؟ اپنی اناؤں کی قربانی دے کر ملک کے بارے میں سوچے گا کون؟ کیا کوئی ہے جو یہ کر سکے؟ یا پھر ہم پوری زندگی ایسے ہی بھارت کی ترقی بارے سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہیں گے؟
اس بار جی 20 کانفرنس کا انعقاد بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن، چین کے وزیراعظم، روس کے وزیر خارجہ اور سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد محمد بن سلمان سمیت دیگر ممبر ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس تنظیم کا قیام 1999ء میں عمل میں آیا تھا۔ اوائل میں رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنرز سالانہ کانفرنس میں شرکت کیا کرتے تھے مگر جب 2007ء میں دنیا بھر میں اقتصادی بحران آیا تو جی 20 تنظیم کو سربراہی اجلاس میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کا پہلا سربراہی اجلاس 2008ء میں امریکہ میں منعقد ہوا۔ جی 20 کے ممبرز ممالک میں چین، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، بھارت، جرمنی، روس، ترکیہ، انڈونیشیا، فرانس، سعودی عرب، جاپان، اٹلی، برازیل، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور ارجنٹائن شامل ہیں۔ اس تنظیم کے اجلاسوں میں غیر ممبر ممالک کو بھی مدعو کیا جاتا ہے اور یہ میزبان کا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے۔ جی 20 تنظیم دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں کا مجموعہ ہے۔ دنیا کے کل جی ڈی پی کا 85 فیصد اور عالمی تجارت کا 75 فیصد انہی ممالک پر مشتمل ہے‘ اس لیے اس کی اہمیت اور افادیت بہت زیادہ ہے۔
ویسے توہمیشہ کی طرح اس بار بھی عالمی معیشت اور صحت کے شعبے کے حوالے سے بہت اہم فیصلے ہوئے مگر سب سے بڑا فیصلہ بھارت سے براستہ مشرقِ وسطیٰ یورپ تک اکنامک کوریڈور ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس پیش رفت کو تاریخی قرار دے ہیں اور اسے عالمی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور مڈل ایسٹ ممالک اور بھارت کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ اس معاہدے میں سب سے اہم کردار سعودی عرب اور امریکہ نے ادا کیا ہے کیونکہ امریکہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ چین کے فلیگ شپ پروگرام ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کا کوئی متبادل لے کر آئے۔ پاک چین راہداری منصوبہ بھی اسی Belt and Road Initiative کی ایک کڑی ہے۔ بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ اکنامک کوریڈور کے معاہدے کے موقع پر امریکی صدر نے کہا ''اس معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ میں خوشحالی، استحکام اور ہم آہنگی آئے گی‘‘۔ بلاشبہ یہ منصوبہ دو براعظموں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرے گا کیونکہ اس کا مقصد ہی بھارت، مڈل ایسٹ اور یورپ کو بندگاہوں اور ریل کے ذریعے آپس میں ملانا ہے۔ بھارت اور یورپ میں ریل کا نیٹ ورک خاصا وسیع ہے مگر مڈل ایسٹ میں ریل کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس منصوبے کے تحت پورے مشرقِ وسطیٰ کو ریل کے ذریعے آپس میں ملایا جائے گا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس منصوبے سے کم آمدنی والے ممالک کو بھی فائدہ ہو گا۔ بھارت، مشرقِ وسطیٰ، یورپ اکنامک کوریڈور کے تحت برآمدات کا ساز و سامان ممبئی سے مڈل ایسٹ کی بندرگاہوں اور پھر وہاں سے ریل کے ذریعے یورپ تک پہنچایا جائے گا۔ اس سے وقت اور پیسے‘ دونوں کی بچت ہو گی۔ یہ منصوبہ عالمی تجارت کو ایک نیا روٹ دے گا۔ اس وقت بھارت، ویتنام، جنوبی کوریا اور چین کا تجارتی مال نہر سویز کے راستے بحیرہ روم میں جاتا ہے اور پھر وہاں سے یورپ کی بندرگاہوں پر اتارا جاتا ہے۔ اگر ساز و سامان امریکہ، کینیڈا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو بھیجنا ہو تو بھی یہ نہر سویز سے بحیرہ روم اور پھر بحر اوقیانوس سے گزر کر ان ممالک تک جائے گا۔ سویز نہر کا راستہ بہت تنگ ہے اور اکثر بحری جہاز وہاں پھنس جاتے ہیں جس سے آمد و رفت میں دقت پیش آتی ہے۔ دو سال قبل ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس کے باعث دنیا بھر کا تجارتی و ترسیلی مال ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہو گیا تھا۔
بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ اکنامک کوریڈور منصوبہ ابھی کاغذوں پر ہے۔ اس کی لاگت کیا آئے گی اور یہ کب تک عالمی تجارت کے لیے کھلے گا‘ اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے مگر وہ ماہرین‘ جو اس منصوبے کا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں وہ شاید جلد بازی کا شکار ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا اور اب تک اس پر خاصا کام ہو چکا ہے۔ چین اپنا سیاسی اور معاشی اثر و رسوخ مڈل ایسٹ اور افریقہ کے ممالک تک بڑھا چکا ہے۔ اس لیے بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ اکنامک کوریڈور کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ ملانا زیادتی ہے۔ یہ منصوبہ جب عملی طور پر شروع ہوگا تو ہی اس کی افادیت کھل کر سامنے آئے گی۔ سرِدست اتنا ضرور کہوں گا کہ بھارت رفتہ رفتہ عالمی سیاست اور معیشت میں مرکزی کردار کا حامل ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں