سیاسی گنجائش ناممکن ؟

دنیا کا سب سے بڑا فن اپنی جان کی حفاظت کرنا ہے جو اس فن سے ناآشنا رہا‘ سمجھیں اس نے زندگی میں کچھ نہیں سیکھا اور جس نے اس فن کو پا لیا‘ وہ پار اتر گیا۔ بہادری یہ نہیں کہ انسان سمندر کی منہ زور لہروں سے جا ٹکرائے بلکہ دلیری یہ ہے کہ حالات کی پیشانی پر لکھا پڑھ کر وقت کے ساتھ حکمت عملی بدل لی جائے۔ اسی میں عافیت ہے اور اسی میں مستقبل کا روشن پہلو پنہاں ہے۔ نیلسن منڈیلا کا قول ہے ''سیاستدان کی سب سے بڑی پہچان اس کی لچک ہوتی ہے۔ سیاستدان کبھی ضدی، گھمنڈی اور انا پرست نہیں ہوتا‘‘۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین وقت کی کڑواہٹ اور لہجوں کی تلخی بھانپ کر سیاسی مفاہمت کی بات کر رہے ہیں تو اس میں قباحت کیا ہے؟ ان پر بے جا تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟ انہیں آگے بڑھنے کے لیے راستہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ کیا ملک کے مقبول ترین سیاست دان کا اتنا بھی حق نہیں۔
خبر ہے کہ سابق وزیراعظم نے جیل سے پیغام بھجوایا ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں، مقتدرہ سے تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور الیکشن کی راہ ہموار ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ دیر آید درست آید! ایک سیاستدان کو ایسے ہی سوچنا چاہیے۔ ان کی جماعت بدترین سیاسی حالات سے گزر رہی ہے‘ ہزاروں کارکنان جیلوں میں قید ہیں اور آئے دن مرکزی رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیے ہر گزرتا دن بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے عثمان ڈار، پھر صداقت عباسی اور اب فرخ حبیب نے سابق وزیراعظم کو نو مئی کے پُرتشدد واقعات کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ عثمان ڈار نے متوازن گفتگو کی مگر صداقت عباسی اور فرخ حبیب نے دل کھول کر تنقید کی۔ فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ ''پی ٹی آئی کے چیئرمین بیلٹ کے بجائے بُلٹ کے حامی ہیں‘ وہ تشدد کی سیاست کی حمایت کرتے ہیں اور لوگوں کو اداروں کے خلاف اکساتے رہے ہیں۔ انہوں نے گرفتاری کی صورت میں پُرتشدد فسادات کرنے کے لیے خفیہ طور پر ذمہ داریاں سونپ رکھی تھیں‘‘۔ یہ انتہائی سنگین الزامات ہیں، ان کے حوالے سے تحقیقات ضروری ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ اس کے بعد جو بھی نو مئی کے سانحے کا ذمہ دار ہو‘ اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے اور اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے بلاوجہ قید و بند کی آزمائش سے نہ گزارا جائے۔
فرخ حبیب سابق وزیراعظم کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں اور خان صاحب کے ان پر بہت سے احسانات ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے ماضی کے تعلق کی لاج تک نہیں رکھی۔ فرخ حبیب نے ایک ایک کر کے ساری باتیں کھل کر بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے سائفر پر جھوٹا بیانیہ بنانے کا بھی اعتراف کیا، عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد انتشار کی سیاست کو ہدفِ تنقید بنایا، القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ پر خان صاحب کی ایمانداری پر سوالات اٹھائے، عثمان بزدار کی اہلیت پر سوال اٹھایا، بشریٰ بیگم اور فرح خان پر اَن گنت الزامات لگائے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تمام باتیں محض الزامات ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں قدرے حقیقت ہو۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا فرخ حبیب پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف کورٹ میں گواہی دیں گے؟ کیا ان کے پاس تمام اپنے عائد کردہ الزامات کے ثبوت موجود ہیں؟ اگر وہ الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کا سیاسی مستقبل مزید مخدوش ہو جائے گا۔ گمانِ غالب ہے کہ فرخ حبیب کے بعد پی ٹی آئی کے مزید رہنما بھی پریس کانفرنس کریں اور عنقریب پارٹی کو خیرباد کہہ دیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب سابق وزیراعظم کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ کیا وہ اب بھی اپنی ضد پر ڈٹے رہیں؟ وہ اپنی پارٹی اور سیاست کو قربان کر دیں؟ وہ کروڑوں پاکستانیوں کی امیدوں کو نذرِ آتش کر دیں؟ یا پھر تھوڑا تحمل سے کام لے کر پارٹی اور سیاست کو بچا لیں؟ کیا انہیں ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے ورکرز کو جیل کی اذیتوں سے محفوظ نہیں کر لینا چاہیے؟ انتشار، خلفشار اور انتقام کی آگ کو بجھا کر رواداری کو فروغ نہیں دینا چاہیے؟
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پاس پارٹی کا وفد بھیجا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے لیے راہ ہموار کریں، سیاسی جماعتوں میں کشیدگی ختم کرانے میں کردار ادا کریں اور پی ٹی آئی کے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرائیں۔ اہم بات یہ ہے کہ صدرِ مملکت ایسا کریں گے یا نہیں؟ وہ پی ٹی آئی کو ریلیف دلانے کے لیے کوئی کردار ادا کریں گے یا چپ کی چادر اوڑھے رکھیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ عارف علوی اب پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ غالباً وہ بھی عثمان ڈار، صداقت عباسی اور فرخ حبیب کی طرح حالات کے تیور دیکھ چکے ہیں اور انہیں معلوم ہو چلا ہے کہ اس بابت اب کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب نگران حکومت اور پی ٹی آئی میں رابطے شروع ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی انتخابی مہم کے یکساں مواقع مانگ رہی ہے اور نگران حکومت سیاسی استحکام کی خواہاں ہے۔ اگر یہ تعاون مثبت رہا تو آگے چل کر ان تعلقات میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو انتخابات میں سہولت مل سکتی ہے ورنہ کشیدگی یونہی برقرار رہے گی۔
ملک کے سیاسی حالات کروٹ لے رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور میاں نوازشریف سے خائف نظر آ رہی ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور (ن) لیگ کے سسٹم میں بڑھتے کردار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مولانا صاحب پہلے الیکشن ملتوی کرنے کے حامی نظر آ رہے تھے مگر اب انہوں نے ایک انوکھی منطق پیش کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا ہے کہ ''اختلافات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ وقت آگیا ہے کہ سیاستدان بالغ نظر ی کا مظاہرہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کی آپس میں گنجائش کا فائدہ کسی ایک جماعت کو نہیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کو ہوگا۔ اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی‘‘۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ مولانا صاحب نے ایسی مفاہمانہ گفتگو کی ہو‘ اس سے قبل بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا حریف جیل میں ہے اس لیے الیکشن کا مزہ نہیں آئے گا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے بھی کچھ ایسی باتیں کی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ایسے اشارے کیوں دے رہی ہے جن کا فائدہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ہوتا نظر آتا ہے؟ وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کی حمایت کیوں کر رہی ہے؟ جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں‘ وہ صرف الیکشن کا التوا چاہتی ہے اور اس کی باقی باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی مقبول سیاسی جماعت ہے اور اس کے مقابل الیکشن جیتنا اتنا آسان نہیں ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے سیاسی مذاکرات کیے جائیں گے یا نہیں؟ اس کے لیے سیاسی گنجائش نکل سکے گی یا نہیں؟ صدرِ مملکت اور مولانا فضل الرحمن اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں؟ اس وقت دو سٹیک ہولڈرز ہیں؛ اول: مقتدر حلقے، دوم: میاں نواز شریف۔ میری ذاتی معلومات کے مطابق دونوں ہی پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس کے الیکشن میں حصہ لینے کے حامی ہیں مگر جن کرداروں نے نو مئی کے پُرتشدد واقعات کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے‘ ان کے لیے کوئی معافی یا درمیانی راستہ موجود نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو انتشار پھیلانے میں شامل نہیں تھے‘ انہیں الیکشن لڑنے کی آزادی ہو گی مگر چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے گنجائش نکلنا سرِ دست ممکن نظر نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں