بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

اگر یہ کہا جائے کہ وقت بدلنے سے آزمائشیں کم ہو جاتی ہیں‘ مخالفت کی تند و تیز آندھی یکایک موسم بہار میں بدل جاتی ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ یقین نہیں آتا تو میاں نواز شریف کی واپسی کے مناظر دیکھ لیں۔ وہ نیب‘ جو کل تک ان کے مقدمات کے حوالے سے اتاولا ہو رہا تھا‘ آج حفاظتی ضمانت میں سہولت کاری کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف کو ایئرپورٹ پر جو سرکاری پروٹوکول دیا گیا‘ اس کی نظیر ہماری سیاسی تاریخ میں پہلے کہاں ملتی ہے؟ اس میں کیا شبہ ہے کہ نواز شریف تین دفعہ اس ملک کے وزیراعظم اور تین بار (دو بار منتخب اور ایک بار نگران) وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں۔ اس وقت سیاسی منظرنامے پر وہ سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں مگر نجانے کیوں ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ تادمِ تحریر ایک عدالتی سزا یافتہ مجرم ہیں۔ انہیں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ کیس میں دس سال اور العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید کی سزا سنا رکھی ہے۔ جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی اپیلوں پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا‘ ان کا سٹیٹس کیسے بدل سکتا ہے؟ انہیں سرکاری پروٹوکول کیسے دیا جا سکتا ہے؟ نادرا انہیں ایئرپورٹ پر بائیو میڑک کی سہولت کیسے فراہم کر سکتا ہے؟ پولیس آفیسر انہیں سیلوٹ کیسے مار سکتے ہیں؟ خدارا! آئین و قانون کا اتنا مذاق مت اڑائیں۔ نواز شریف سے ہمدردی اپنی جگہ مگر عدالتی فیصلوں کا احترام اولین ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا موقف درست ہو کہ انہیں ذاتی انتقام کا نشانہ بنا کر سزا دی گئی ہو مگر اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا عدالتی فیصلے سے پہلے ہی یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ بے قصور ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے نظام کا خدا ہی حافظ ہے۔
قانونی و انتظامی جھمیلوں سے قطع نظر‘ مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کا تاریخی استقبال کیا۔ اتنا بڑا جلسہ (ن) لیگ نے شاید ہی پہلے کیا ہو۔ مینارِ پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں سجایا گیا پنڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہزاروں لوگ سٹرکوں پر تھے۔ اس جلسے کو پی ٹی آئی کے جلسوں سے کسی طور کم قرار نہیں دیا سکتا۔ جلسے کی ایک خاص بات نواز شریف کی سنجیدگی تھی۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی جذباتی نظر نہیں آئے۔ ان کی تقریر نے طے کرنا تھا کہ وہ پاکستان کے مسائل بارے سنجیدہ ہیں یا پھر انتقام کی آگ بجھانے کے لیے بے تاب ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اچھی تقریر کی۔ ایک دو پہلوئوں پر اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک انسان ہیں۔ ان کی تقریر کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے درگزر کا راستہ اپنایا اور تصاد م سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ''میرے دل میں رتی برابر بھی بدلے اور انتقام کی خواہش نہیں ہے‘‘۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر عمل کرکے پاکستان ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔ گزری ایک دہائی میں سیاسی افراتفری اور تصادم کی پالیسیوں نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ ایسے ہی گتھم گتھا رہی تو پھر مسائل کا حل کیسے نکلے گا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چھ سال قبل میاں نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس وقت ملک کی معاشی سمت قدرے بہتر تھی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ جس کے اثرات آج تک زائل نہیں ہو سکے۔ ملک پیچھے سے پیچھے لڑھکتا گیا اور آج مہنگائی تیس فیصد کے قریب ہے۔ مجموعی قرضے 64 ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں، سٹیٹ بینک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی آ رہی ہے، شرحِ سود بائیس فیصد پر ہے اور ترقی کی شرح دو فیصد کے گرد گھوم رہی ہے۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں اور بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم نے آج بھی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔
اس سے قبل غالب گمان تھا کہ میاں نواز شریف اپنی تقریر میں احتساب پر زور دیں گے، وہ قمر جاوید باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ پر ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگائیں گے مگر انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے اداروں کو موردِ الزام ٹھہرایا نہ عدلیہ پر تنقید کے نشتر چلائے۔ انہوں نے ماضی کو کریدنے کے بجائے مستقبل کی بات کی۔ اگر وہ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے میں لگ جاتے تو پھر اپنی شعلہ بیانی پر تو شاید داد مل جاتی مگر ملک کا بہت نقصان ہو جاتا۔ اداروں کے سابق سربراہان اور عدلیہ پر تنقید نہ کر کے نواز شریف نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2016ء میں بنایا گیا احتساب کا بیانیہ ملکی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر گیا اور اگر آئندہ بھی یہی روش اختیار کی گئی تو معاشی بدحالی کو بریک نہیں لگے گی۔ ہاں‘ البتہ انہوں نے اشارے کنایوں میں یہ ضرور پیغام دیا کہ اگر انہیں چھیڑا گیا تو پھر وہ چپ نہیں رہیں گے۔ انہوں نے غالبؔ کا وہ شعر بھی پڑھ کر سنایا کہ
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں کچھ ذاتی قسم کی دکھ بھی بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والدین کو قبر میں اتارنے نہیں دیا گیا، میری بیوی بیمار تھی مگر میر ی ٹیلی فون پر بات نہیں کرائی گئی، میری بیٹی کو میری آنکھوں کے سامنے گرفتار کیا گیا، میرے زخم کبھی نہیں بھریں گے مگر میں ماضی میں الجھنا نہیں چاہتا‘‘۔ نواز شریف نے اپنے دور کو بھی یاد کیا اور کہا: میں نے ملک بھر میں موٹرویز کے جال بچھائے، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا، میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین بنائی، میرے دور میں روٹی چار روپے اور مہنگائی کی شرح ساڑھے تین فیصد تھی، ڈالر 104 روپے کا تھا اور بجلی بہت سستی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کی تعمیرِ نو اور معیشت کی بحالی کی بات کی۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک کو مہنگائی کے گرداب سے نکال لیں گے مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ کریں گے کیسے؟ اس کا انہوں نے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ انہیں عوام کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ درپیش حالات کا مقابلہ کیسے کریں گے، کون سی پالیسیاں اپنا کر ملک کی معیشت کو پاتال سے نکالیں گے اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے کیسے بچائیں گے۔
نواز شریف کی تقریر کی سب سے بہترین یہ بات تھی کہ انہوں نے اپنی جماعت کو گالی کا جواب گالی سے دینے سے منع کر دیا۔ ملک میں سیاسی تفریق جس قدر بڑھ چکی ہے‘ اس میں یہ پیغام دینا انتہائی ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ دوسری جماعتیں بھی اس کی تقلید کریں گی یا نہیں؟ مسلم لیگی قائد نے پوری تقریر میں اپنے حریف چیئرمین پی ٹی آئی کا نام لینے سے گریز کیا اور ان پر کھلے عام تنقید نہیں کی۔ یہ ایک اچھی روایات ہے۔ سیاسی حریف کا احترام ناگزیر ہے، اس سے معاشرے میں شدت پسندی کم ہوتی اور توازن برقرار رہتا ہے؛ البتہ اگر وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کا محاورہ نہ پڑھتے تو بہتر ہوتا۔ انہیں خواتین کے حوالے سے بھی ریمارکس نہیں دینے چاہئے تھے۔ اتنی سنجیدہ تقریر کے بعد لوز شاٹس کی ضرورت ہی کیا تھی؟ البتہ انہوں نے جو کہا کہ 'ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں سیاسی جماعتوں اور اداروں کو مل کرکام کرنا ہو گا‘ تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اشارہ مافیاز، ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی طرف تھا۔ اس پیغام سے یہ تاثر گیا کہ وہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حامی ہیں اور آگے چل کر مخلوط حکومت کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف اس وقت سب سے سینئر سیاستدان ہیں‘ ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ اگروہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ سیاسی استحکام کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ اگرملک میں سیاسی استحکام آ گیا تو معیشت خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں