لاڈلا کون؟

کبھی لاڈلا تو کبھی آنکھ کا تارا۔کبھی گیٹ نمبر چار کا مسافر تو کبھی آمریت کی نرسری کی پیداوار۔ ہمارے سیاستدانو ں کو کیا کیا لقب نہیں دیے جاتے اور ستم یہ کہ وہ بھی اسے اپنے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے۔ جو جتنا 'لاڈلا‘ وہ اتنا ہی کامیاب۔ ایسے سیاستدانوں کی طویل فہرست ہے جن کا سیاسی جنم آمروں کی کیاریوں میں ہوا اور پھر وہ عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ پہلے قبولیت ملی اور پھر مقبولیت۔ ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور عمران خان سمیت سینکڑوں سیاستدان اسی راہ پر چل کر سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور آگے کی منزلیں طے کیں۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے؟ جن سیاستدانوں کو لاڈلا ہونے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا‘ وہ عملی سیاست میں ناکامیوں کی خاک چھانتے رہے۔ انہیں وہ سہولت اور وہ ترقی نصیب نہیں ہو سکی جو لاڈلوں کے حصے میں آئی۔
ویسے تو لاڈلا ہونا سیاسی طور پر خوشحالی کی علامت رہا ہے مگر اس کے ساتھ ایک قباحت بھی جڑی ہے۔ آنکھ اوجھل‘ پہاڑ اوجھل۔ جو آنکھ سے دور ہوا‘ وہ د ل سے بھی اترگیا اور پھر ایسا دل سے اترا کہ ساری رونقیں ویرانیوں میں بدل گیا۔76 برسوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ آپ یا تو لاڈلے ہوتے ہیں یا پھر زیرِ عتاب۔ اچھے ہوتے ہیں یا پھر برے، دوست ہوتے ہیں یا پھر دشمن۔ لاڈلے کو دونوں انتہائیں دیکھنا پڑتی ہیں۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب تک ساتھ تھے‘ قبول تھے مگرجیسے ہی انہوں نے اپنی راہ بنانے کی کوشش کی‘ وہ دشمنوں کی صف میں کھڑے ہو گئے۔ بعد ازاں ان کی حکومت گرائی گئی اور انہیں تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ میاں نواز شریف بھی آنکھ کا تارا اور ہر دلعزیز تھے۔ انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا، دو بار وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر نو ستاروں کے جھرمٹ میں وزیراعظم پاکستان کی مسند پر بٹھا دیا گیا مگر جیسے ہی انہوں نے کہا کہ ''ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ ان کے اقتدار کا زوال شروع ہو گیا۔ اس کے بعد بھی وہ دو بار مزید وزیراعظم بنے مگر ایک بار بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ دونوں دفعہ انہیں جیل جانا پڑا اور جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی۔ پہلی بار سات سال اور دوسری دفعہ چار سال کے لیے جلاوطن رہے۔ ان پر بے تحاشا الزامات لگتے رہے اور درجنوں مقدمات بھی قائم ہوئے۔ فی الحال عمران خان کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔
خان صاحب سیاست میں بارہویں کھلاڑی سمجھے جاتے تھے اور ان کی سیاسی پارٹی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں میثاقِ جمہوریت ہوا تو پھر سیاست کی دنیا میں تھرڈ پاور یعنی نئے لاڈلے کی انٹری ہوئی۔ خان صاحب کو ہر وہ سہولت دی گئی جو سیاست کے غبارے میں ہوا بھرنے کا کام کرتی ہے۔ بڑے بڑے جلسے کرائے گئے اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو کمزور کیا گیا۔ وہ پروپیگنڈا کا مؤثر ہتھیار ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام میں ان کی پذیرائی ہو گئی۔ وہ لاڈلے کا ٹھپہ لگوا کر وزیراعظم تو بن گئے مگر ساڑھے تین سال بعد ہی 'سیم پیج‘ کے حالات اس نہج پر آ گئے کہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور وہ وزیراعظم ہاؤس سے اپنے گھر چلے گئے۔ لاڈلا دل سے اتر گیا اور ایسا اترا کہ پھر دوبارہ الفت کی دہلیز عبور نہ کر سکا۔ خان صاحب نے صلح کی بہت کوشش کی مگر بات نہ بن سکی اور جب کسی بھی طور بات نہ بنی تو وہ مخاصمت پر اتر آئے۔ یہ ایسی لڑائی کی ابتدا تھی جو اس سے پہلے دیکھی نہ سنی گئی۔ مقتدر حلقوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جو سیاسی لڑائی کا فائول پلے ہے۔ اسی دوران نو مئی کا وقوعہ ہو گیا۔ اس کے بعد کوئی حد قائم نہ رہی اور کوئی لحاظ ملحوظِ خاطر نہ رکھا گیا۔ ہاتھوں سے لگائی گئیں گرہیں منہ سے کھولی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری پی ٹی آئی تاش کے پتوں کے محل کی طرح بکھر گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پارٹی چیئرمین، وائس چیئرمین اور پارٹی صدر جیل میں ہیں اور پی ٹی آئی میں سے دو مزید سیاسی جماعتیں نکل چکی ہیں۔ یہ ملکی تاریخ کے تیسرے بڑے لاڈلے کا انجام ہے۔
مولانا روم کا قول ہے: دوسروں کے سہارے جینا چھوڑ دیں کیونکہ آپ پیدا ہی کھڑے ہونے کے لیے ہوئے ہیں۔ شاید رومی کا یہی قول پڑھ کر ہمارے سیاستدان بیساکھیاں چھوڑنے کی سعی کرتے رہے اور دھڑام سے اوندھے منہ گرتے رہے۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں ''لاڈلا اور سلیکٹڈ‘‘ کے نعرے لگتے رہے اور یہی سلسلہ شہباز حکومت کے دور میں بھی جاری رہا۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم یہ اعتراف کیا کہ وہ تیس سال سے آنکھ کا تارا ہیں اور وہ اپنے لاڈلے ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جب سے میاں نواز شریف وطن واپس آئے ہیں ایک بار پھر ایسی ہی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اقتدار کی راہیں ان کے لیے خود بخود ہموار ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں‘ انہیں مہیا کر دیا جاتا ہے۔ ان کی آمد پر ان کو سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے، نادرا کی ٹیم ایئر پورٹ پر آکر ان کا بائیو میٹرک کرتی ہے۔ پولیس آفیسر انہیں سیلوٹ مارتے ہیں، نگران حکومت ان کا استقبال کرتی ہے، نیب ان کی ضمانت میں سہولت کاری کرتا ہے۔ یہ وہی نیب ہے جو پانچ سال قبل نواز شریف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا تھا۔ اب اس ادارے کو حفاظتی ضمانت پر کوئی اعتراض ہے نہ وہ انہیں گرفتار کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔ نواز شریف صاحب کو ضمانت دلانے کی اتنی جلدی تھی کہ نیب حکام بن بلائے عدالت میں پہنچ گئے۔ ایسا ایک نہیں‘ دو دفعہ ہو چکا ہے۔ خدا کی پناہ! بھلا ایسے بھی کوئی رنگ بدلتا ہے؟ ماضی میں لگائے گئے الزامات کی ہی کوئی لاج رکھ لی جاتی۔ احتسابی ادارہ خود کو غلط ثابت کرنے پر کیوں تلا ہے؟ کیا اسے اپنی ساکھ کی بھی کوئی پروا نہیں؟ کیا ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس نیب نے نہیں بنائے تھے؟ کیا اس وقت نواز شریف کو سزا دلانے کے لیے عدالتوں میں دلائل نہیں دیے گئے تھے؟
دو روز قبل دو حیرت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے میاں نواز شریف کی درخواست قبول کرتے ہوئے العزیزیہ ریفرنس میں ان کی سزا معطل کر دی۔ نگران کابینہ نے اعظم نذیر تارڑ کو وڈیو لنک پر سنا اور فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ میڈیکل گراؤنڈ پر ہوا اور سی آر پی سی کے سیکشن 401 نے حکومت کو ایسا کرنے کا اختیار دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کی نگران حکومت نے قانونی اور اخلاقی‘ دونوں لحاظ سے ٹھیک نہیں کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومت ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے مگر یہ کام منتخب حکومت کے کر نے کا ہے‘ نگران حکومت کا نہیں۔ ایسا نہیں کہ صوبائی حکومت کسی کی بھی سزا معطل کر سکتی ہو‘ یہ اختیارات یقینا ہنگامی صورتحال کے لیے ہیں۔ کیا اس وقت میاں نواز شریف کوکوئی ہنگامی صورتحال درپیش ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ وہ ہشاش بشاش ہیں اور ان کی سیاسی مصروفیات بھی عروج پر ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب نواز شریف صاحب کی صحت ٹھیک ہے تو پھر سزا معطل کرنے کا جواز کیا ہے؟ نواز شریف صاحب کو بھی اخلاقی طور پر ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کی سزا ایون فیلڈ ریفرنس میں میرٹ پر معطل ہو سکتی ہے تو العزیزیہ کیس میں کیوں نہیں۔ انہیں ضمانت کے لیے اپنا کیس ہائیکورٹ میں میرٹ پر لڑنا چاہیے تھا۔ اس اخلاقی برتری کے لیے وہ چند دن جیل بھی چلے جاتے تو کیا حرج تھا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی دونوں اپیلیں بحال کرنے کے کیس کی سماعتیں جاری ہیں اور نیب انہیں ریلیف دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دن کے لیے بھی جیل جائیں گے اور سیاسی حالات جس تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں‘ آئندہ دنوں میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیب ان کے خلاف اپنا کیس ہی واپس لے لے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ کیا نیب کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا یا پھر ایک نئی قانونی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ اگر نواز شریف کو یہ ریلیف مل گیا تو پھر وہ لاڈلوں کی فہرست میں سب کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں