قائدِ مسلم لیگ اور چیئرمین پی ٹی آئی میں فرق

غم کی صلیب اٹھائے سیاست کے خاردار راستوں پر چلنا آسان ہوتا تو آج پی ٹی آئی کا یہ حال نہ ہوتا۔ نامور سیاستدان سسکتے اورکراہتے نظر نہ آتے۔ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا گلہ کرتے نہ انتخابی مہم میں رکاوٹوں کا تذکرہ ان کے منہ سے سننے کو ملتا۔ جو دوسروں کی مرضی کے آگے سر جھکا دیتے ہیں‘ وہ فنا کا انتظار کرتے ہیں اور جو سرِ تسلیم خم نہیں کرتے‘ وہ ڈٹ جاتے ہیں کیونکہ پانی میں ڈوبتے ہوئے لوگ بارش کے چھینٹوں کی پروا نہیں کرتے مگر پی ٹی آئی کے اکابرین کو کون یہ سمجھائے؟
پاکستان جیسے ممالک میں الیکشن کے دوران سب سے بڑا مسئلہ سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا نہ ہونا ہے۔ ایک جماعت کو کُھل کھیلنے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ دوسری پارٹی زیرِ عتاب نظر آتی ہے۔ آج سے نہیں‘ دہائیوں سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے اور وقت کے ساتھ مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ زیادہ دور مت جائیں‘ 2002ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا ناطقہ بند تھا، سیاست ان کے لیے شجرِ ممنوعہ کی مانند تھی اور ساری پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی۔ 2008ء میں (ق) لیگ اور 2013ء کے الیکشن میں لبرل‘ سیکولر جماعتوں کے لیے الیکشن مہم چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا کیونکہ دہشت گردی کا ناگ پھن پھیلائے کھڑا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کے برابر تھی۔ پی ٹی آئی کو فتح یاب کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ خان صاحب کا راستہ صاف کرنے کے لیے میاں نواز شریف کو نااہل تک کر دیا گیا۔ اب ایک بار پھر الیکشن سر پر ہیں اوراس دفعہ گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی اور مسلم لیگ (ن) کو پلکو ں پر بٹھایا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے لیے ہر ممکن ریلیف کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان کی جماعت انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہے، بہت سے زعما پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بیشتر مفرور ہیں۔ انہیں جلسے جلوس کی اجازت دی جا رہی ہے نہ ہی ریلیاں نکالنے کی۔ وقت کا پہیہ اب پی ٹی آئی کی مخالف سمت میں گھوم رہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیریہ ریفرنس اور ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اسلام ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''العزیزیہ ریفرنس میں پنجاب حکومت کی جانب سے سز ا معطل ہو چکی ہے اور ایو ن فیلڈ کیس میں نواز شریف کی سزا معطلی کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔ نوازشریف کے وکلا نے پنجاب حکومت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ وہ 74 سال کے ہیں اور خرابیٔ صحت کے باعث جیل میں نہیں رہ سکتے۔ عطا تارڑ کی طرف سے دیا گیا پاور آف اٹارنی درست طریقہ کار سے تیار نہیں کیا گیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا، اس لیے عدالت قرار دیتی ہے کہ رٹ پٹیشن ناقابلِ سماعت ہے۔ نواز شریف کو حفاظتی ضمانت نیب کے واضح اور غیر مبہم موقف کی وجہ سے دی گئی کیونکہ نیب نے کہا تھاکہ نواز شریف کی گرفتاری نہیں چاہتے‘‘۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عدالت نے پنجاب کی نگران حکومت کی طرف سے دیے گئے ریلیف کو کیونکر تسلیم کر لیا حالانکہ صوبائی حکومت کا یہ اختیار ہنگامی حالات کے لیے ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف تندرست ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے مشغول ہیں۔ انہیں میرٹ پر اپنی سزا معطل کرانا چاہیے تھی۔ پنجاب کی نگران حکومت کی طرف سے دیا گیا ریلیف اخلاقی اور قانونی‘ دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ دوم‘ اگر عطا تارڑ کی طرف سے جمع کرایا گیا پاور آف اٹارنی قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتا اور ان کی درخواست ناقابلِ سماعت ہے تو پھر میاں نواز شریف کو تین بار ریلیف کیسے دے دیا گیا؟ ان کو دو بار حفاظتی ضمانت دی گئی اور ان کی اپیلیں بھی بحال کر دی گئیں، یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ 1969ء میں سپریم کورٹ نے ''گل حسن بمقابلہ سٹیٹ‘‘ کیس میں فیصلہ دیا تھا کہ جو شخص سزا یافتہ ہونے کے باوجود مفرور ہو گا اس کا پاور آف اٹارنی کا حق مفلوج ہو جائے گا اور جو وکیل ایسی درخواست لائے گا‘ اس کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ شاید اسی فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیا ہے مگر اس ناقابلِ سماعت درخواست کی بنیاد پر جو ریلیف درکار تھا‘ وہ مہیا کر دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسری طرف سائفر کیس اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ گواہوں کی شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اندازہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ جب سے یہ کیس شروع ہوا ہے‘ خان صاحب کی جانب سے مسلسل الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ سب بڑا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ جیل میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں سلو پوائزن دیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریاست کی حراست میں کوئی شخص کیسے غیر محفوظ ہو سکتا ہے؟ خان صاحب ملک کے مقبول ترین سیاستدان ہیں، ان کے ساتھ ایسا سلوک کون روا رکھ سکتا ہے؟ پی ٹی آئی کے وکلا کو چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور بے پَر کی مت اڑائیں۔ خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف بننے والے تمام کیسز کو بوگس اور جھوٹا سمجھتے ہیں اور اپنی غلطیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔ وہ کیس کے ابتدائی مراحل سے لے کر عدالتی فیصلے تک‘ ہر قدم پر معترض رہے اور آخرکار انہیں تین سال قید کی سزا ہو گئی۔ سائفر کیس میں بھی ان کا رویہ یہی ہے۔ انہیں تو سائفر کے معاملے پر مقدمہ درج ہونے پرہی اعتراض ہے اور وہ بار بار کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں۔ وہ یہی درخواست لے کر کبھی خصوصی عدالت کے پاس جاتے ہیں اور کبھی اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہیں۔ وہ خصوصی عدالت کے قیام کو بھی غیر قانونی سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف ہائیکورٹ میں بھی گئے مگر شنوائی نہیں ہوئی۔ انہیں اِن کیمرہ ٹرائل پر بھی اعتراض ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کیس کی اوپن سماعت ہو۔ نجانے کیوں وہ ایک بار پھر سائفر کیس کی حساسیت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر سائفر کے مندرجات کو عوام میں لے جایا جا سکتا تو پھر مقدمہ ہی کیوں بنتا؟ خان صاحب سائفر کیس میں فردِ جرم لگنے پر بھی خوش نہیں ہیں اور درخواست لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ گئے ہیں۔ انہیں گواہوں کے بیان ریکارڈ ہونے پر بھی اعتراض ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ کیس کے التوا کے خواہش مند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حربے کارگر ثابت ہوں گے؟ وہ سائفر کیس کی کارروائی رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اعلیٰ عدالتیں ان کی درخواست کو تسلیم کریں گی؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ شاید ممکن نہیں ہے۔ انہیں کیس کو میرٹ پر لڑنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے، الزامات کی سیاہی دُھل سکے اور سچ کا بول بالا ہو سکے۔
پی ٹی آئی کے وکلا نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ خان صاحب کو سابق وزیراعظم کی حیثیت سے جو سہولتیں ملنی چاہئیں‘ وہ نہیں دی جا رہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو انتہائی غیر مناسب عمل ہے۔ جیل میں ان کے تمام حقوق کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ انہیں وہ تمام سہولتیں ملنی چاہئیں جن کے وہ بطور سابق وزیراعظم حقدار ہیں اور جن کی قانون اجازت دیتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ خان صاحب کو بہت سی سہولتیں دی بھی گئی ہیں‘ ان کے سیل کو بڑا کیا گیا ہے‘ ورزش کے لیے مشین دی گئی ہے‘ انہیں عام قیدیوں والا کھانا نہیں دیا جاتا بلکہ الگ سے کھانا بنتا ہے۔ ٹی وی‘ بیڈ‘ میز‘ کرسی اور الگ واش روم کی سہولتیں بھی انہیں میسر ہیں۔ اگر اس کے علاوہ بھی کسی سہولت کی قانون اجازت دیتا ہے تو اس کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ آخر وہ ملک کے سابق وزیراعظم اور ایک مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں‘ ان کی تکریم ناگزیر ہے۔ یہ تاثر بھی زائل ہونا چاہیے کہ میاں نواز شریف اور خان صاحب کے لیے الگ الگ معیارات ہیں۔ دونوں سابق وزیراعظم ہیں اور دونوں کو قانون کے مطابق انصاف ملنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں