پی ٹی آئی کی فاش غلطیاں

سیاست کی دنیا میں سچ کی حکمرانی ہوتی تو آج ہمارا ملک اس نہج پر نہ ہوتا۔ ہمارا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ورکرز حقائق پر پردہ پوشی کرتے ہیں اور لیڈرز سچ سننے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں۔ وہ خوشامد کے آنگن میں رہنا پسند کرتے ہیں اور کبھی اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں کر پاتے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی ہو یا جے یو آئی (ایف)۔ ساری سیاسی جماعتوں میں چاپلوسی کرنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور سچائی کا عَلم اٹھانے والے خال خال ہی ملتے ہیں۔
نو مئی کے پُرتشدد واقعات کو گزرے چھ ماہ بیت چکے اور اب بھی پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ سیلابی ریلہ آٹھ فروری سے پہلے تھمنے والا نہیں۔ اسد عمر‘ جو سیاست کا پڑھا لکھا چہرہ تھے‘ انہوں نے پی ٹی آئی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا ہے۔ اسد عمر نے اپنے پیغام میں کہا کہ ''میں ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی سے متفق نہیں ہوں۔ ایسی پالیسی ریاستی اداروں کے ساتھ شدید ٹکراؤ کا باعث بنی ہے جو ملک کے مفاد میں نہیں ہے‘‘۔ اسد عمر کا یوں سیاست چھوڑنا اچھا شگون نہیں ہے۔ وہ مڈل کلا س طبقے کی نمائندگی کرتے تھے اور سیاست میں نیچے سے اوپر آئے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسد عمر جاتے جاتے بھی پی ٹی آئی کی خیر خواہی کر گئے ہیں اور انہوں نے بتا دیا کہ خان صاحب کی سب سے بڑی غلطی کیا تھی۔ حقیقی دوست اور خیر خواہ وہ ہوتا ہے جو منہ پر سچ بولے اور غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ دوسری طرف صدرِ مملکت کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے کون سی بڑی سیاسی غلطیاں ہوئی ہیں کہ وہ ایوانِ وزیراعظم سے اڈیالہ جیل پہنچ گئے ہیں؟ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس پر جواب دیا کہ ''ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے سوچا کہ آئین غالب آئے گا۔ اس کے علاوہ مجھے تو کچھ نظر نہیں آتا۔ سارے آئینی ماہرین کہہ رہے تھے کہ الیکشن نوے روز سے آگے نہیں جا سکتے مگر ایسا نہیں ہوا‘‘۔ صدر صاحب کا بیان سن کرمجھے حیرت ہوئی کہ انہیں عمران خان کی فاش سیاسی غلطیاں نظر کیوں نہیں آ رہیں؟ وہ دانستہ طور پر حقائق سے نظریں پھیر رہے تھے یا پھر وجہ کچھ اور ہے؟ صدر صاحب نے یہ بالکل درست فرمایا کہ آئین کی روح سے الیکشن نوے روز سے ایک دن بھی آگے نہیں جا سکتے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاق میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے‘ وہ ہرگز آئینی نہیں کہلا سکتا مگر کیا خود ان سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ آئین کے آرٹیکل 48 کی سب کلاز پانچ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی تحلیل کرے گا تو وہ نوے روز میں الیکشن کی تاریخ دے گا۔ کیا ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کے لیے تاریخ دی؟ کیا ان کے پاس واضح آئینی شق سے انحراف کا کوئی جواز ہو سکتا ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صدر علوی کا بیان حقائق کی ترجمانی نہیں کرتا۔
28 فروری 2022ء کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہوتا دیکھ کرپی ٹی آئی حکومت کا آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنا کیا ملک کے مفاد میں تھا؟ کیا یہ ان کی سیاسی اور معاشی غلطی نہیں تھی؟ کیا 27 مارچ 2022ء کو بطور وزیراعظم کا سائفر کو ایک جلسے میں لہرانا اور غداری کا بیانیہ بنانا ان کی سیاسی غلطی نہیں تھی؟ اگر وہ یہ غلطی نہ کرتے تو شاید آج جیل میں نہ ہوتے اور چودہ سال تک سزا کی تلوار ان کے سر پر نہ لٹک رہی ہوتی۔ تین اپریل کو ڈپٹی سپیکر نے جس طرح ایک سو بہتر ایم این ایز پر غداری کی رولنگ دی تھی اور اس کے بعد وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدرِ مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کی تھی‘ کیا وہ آئینی عمل تھا؟ کیا اسے سیاسی غلطی قرار نہیں دیا جا سکتا؟ اب تو سپریم کورٹ بھی وزیراعظم اور صدر کے اس عمل کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ آئین کے مطابق ایم این ایز پانچ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور انتخابات پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے محض اپنے سیاسی مفاد کی خاطر 135 ایم این ایز کو اسمبلی کی آئینی مدت کی تکمیل سے ڈیڑھ سال قبل ہی استعفیٰ دینے کا کہا‘ کیا اقتدار کی خواہش کے علاوہ اس کاکوئی آئینی اور قانونی جواز تھا؟ اس سے بڑی سیاسی غلطی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ باتیں اب کنفرم ہو چکی ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف مئی 2022ء کے آخر میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر خان صاحب نے یہ جاننے کے باوجود پچیس مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ کیا آئین حکومت کو گرانے کے لیے لانگ مارچ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا دھرنوں کے ذریعے کسی آئینی حکومت کو گرایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ خان صاحب کی بڑی سیاسی غلطی نہیں تھی؟ پچیس مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد خان صاحب نے قمر جاوید باجوہ کے خلاف محاذ کھول لیا۔ انہیں غدار، میر جعفر، میر صادق اور بیرونی آلہ کار تک کہا۔ نیوٹرل ہونے کو ایک طعنہ بنا دیا گیا۔ اس مخاصمانہ بیانیے ہی کے باعث خلیج بڑھتی چلی گئی۔ کیا اپنے ملک کے سپہ سالار کو اس طرح کے القابات دینا ٹھیک تھا؟
گزشتہ سال معروف اینکر ارشد شریف کے اندوہناک قتل کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے کھل کر منفی سیاست کی۔ اداروں پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلوائے گئے۔ اسی موقع پر تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی اور اداروں کے خلاف چلنے والی منفی مہم کو بے نقاب کیا۔ مجھے حیرت ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ پی ٹی آئی کی غلطی نہیں لگتی۔ جب ایک ایک کرکے تمام حربے ناکام ہونے لگے تو کپتان نے ایک اہم تعیناتی کو متنازع بنانا شروع کر دیا اور اس کے لیے ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا۔ خان صاحب جب بھی تقریر کرتے‘ اداروں کو متنازع بناتے۔ صدر صاحب کو کیا ان کے یہ اقدامات سیاسی غلطی محسوس نہیں ہوتے؟ گزشتہ سال اکتوبر میں لانگ مارچ میں وزیرآباد کے قریب کسی جنونی نے خان صاحب کے قافلے پر فائرنگ کر دی‘ خان صاحب کو بھی گولی لگی مگر خدا کا شکر ہے کہ ان کی جان بچ گئی‘ اس کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ایف آئی آر کی آڑ میں اعلیٰ حکومتی و ریاستی عہدیداروں کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔ بغیر ثبوت کے اہم شخصیات پر الزامات لگائے گئے اور یوں تلخیاں دوچند ہو گئیں۔ وفاقی حکومت ختم کرنے کے سارے حربے ناکام ہو گئے تو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے 26 نومبر 2022ء کو راولپنڈی کے جلسے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اپنی پارٹی ہی کی حکومتیں ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ خان صاحب کو بہت سمجھایا گیا کہ دوصوبوں میں قبل ازوقت الیکشن سے نیا سیاسی بحران پیدا ہو گا اور وفاق کو خطرات لاحق ہو جائیں گے جبکہ بعد ازاں عام انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھیں گے مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی اور دونوں اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ آج ملک میں جتنے بھی آئینی اور سیاسی بحران ہیں‘ اسی ایک فیصلے کی وجہ ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوبائی اسمبلی توڑنا وزیراعلیٰ کا اختیار ہے مگر یہ عمل اس کی آزادانہ سوچ کے تابع ہے جبکہ اس معاملے میں صورتحال بالکل مختلف تھی۔ کیا اپنی ہی حکومتیں ختم کرنا اور سیاسی انتشار کو ہوا دینا بڑی سیاسی غلطی نہیں تھی؟
توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عدالت میں حاضر نہیں ہوتے تھے‘ عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو پولیس انہیں گرفتار کرنے چلی گئی۔ پھر کیا تھا‘ پی ٹی آئی کے ورکرز پولیس کے مقابل آ گئے اور جھڑپیں شروع ہو گئیں، پولیس پر پتھراؤ کیا گیا‘ تین دن تک زمان پارک میں خواتین سمیت ورکرز ایک ڈھال کا کام کرتے رہے‘ کیا ریاست کے ساتھ ٹکراؤ اور اداروں کے کام میں خلل کی پالیسی سیاسی غلطی نہیں تھی؟ سب سے بڑھ کر‘ نومئی کو جو کچھ ہوا کیا وہ ہونا چاہیے تھا؟ جس طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد فسادات ہوئے‘ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا‘ عسکری تنصیبات پر حملے ہوئے‘ کورکمانڈر ہاؤس لاہور کو جلایا گیا‘ جی ایچ کیو میں توڑ پھوڑ کی گئی‘ پولیس اور عوام کی گاڑیاں نذرِ آتش کی گئی‘ کیا صدر صاحب اسے چیئرمین پی ٹی آئی کی فاش غلطی نہیں مانتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں