سیاسی جماعتوں کی بے چینی

ہماری سیاست کا ماضی عجیب، حال حیران کن اور مستقبل بے یقینی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ جب بھی ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ دکھوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور آہ و بکا کے علاوہ کچھ سنائی نہیں پڑتا۔ ماضی کو کریدنے سے بجھتے شعلے مزید بھڑکنے لگتے ہیں۔ ہمارے حال کا بھی یہی حال ہے۔ فنا کی پرچھائیوں نے بے بسی کو عیاں کر دیا ہے۔ ہر چہرہ مرجھایا ہوا ہے‘ ہر آنکھ آشکبار اور ہر دل کی دھڑکن سرکشی پر آمادہ ہے۔ ایسے میں مستقبل کا زائچہ بنانا اور پھر امیدِ سحر کا دیا جلائے رکھنا انتہائی مشکل امر ہے۔
جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہے ہیں‘ ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بداعتمادی کے غبار میں پھنسی نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی‘ تینوں جماعتوں کے مسائل مختلف ہیں۔ الیکشن کا بگل بجتے ہی پیپلز پارٹی اپنی سابقہ اتحادی مسلم لیگ (ن) سے دور اور پی ٹی آئی کے قریب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری مضطرب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس بار انہیں موقع ملنا چاہیے مگر سرِدست سیاست کی نبض بلاول بھٹو کے لیے نہیں د ھڑک رہی۔ کراچی، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے مسلم لیگ (ن) دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کو نشانے پر لیا ہوا ہے۔ وہ کبھی 'ووٹ کو عزت دو‘ کا طعنہ دیتے ہیں اور کبھی بزرگ سیاستدان ہونے کا بیان داغتے ہیں۔ کبھی مہنگائی کا ذمہ دار (ن) لیگ کو قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے مقتدرہ کی بی ٹیم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اپنے منشور کے بجائے کسی اور کی سیاسی مینجمنٹ پر تکیہ کیے ہوئے ہے جبکہ آصف علی زرداری صاحب کی لائن بالکل مختلف ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ دونوں باپ بیٹا 'گڈ کاپ‘ بیڈ کاپ‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آصف زرداری الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، الیکشن کی شفافیت پر بھی انہیں یقین ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی وہ رام کیے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بلاول بھٹو عوام کو مطمئن کرنے کوشش میں ہیں اور آصف زرداری مقتدر حلقوں کے ساتھ بداعتمادی کی فضا ختم کرنے کے مشن پر ہیں۔ زرداری صاحب کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں تو شاید دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے مگر وفاق اور پنجاب میں شیئر حاصل کرنے کے لیے انہیں مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرنا پڑے گا۔
گزشتہ دنوں میری پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ بلاول بھٹو زرداری اتنے تلخ کیوں ہو رہے ہیں اور زرداری صاحب کی سوچ ان سے مختلف کیوں ہے؟ انہوں نے جواب دیا ''بلاول انتخابی سیاست پر فوکس کر رہے ہیں اور زرداری صاحب انتخابات کے بعد جو منظر نامہ ہو گا‘ اس پر توجہ دے رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہماری جماعت اس الیکشن میں پنجاب میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کر پائے گی۔ لیکن اگر ہمیں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنا ہے تو پھر آئندہ صوبائی حکومت میں حصہ چاہیے تاکہ ہماری جڑیں مضبوط ہو سکیں‘‘۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی سے تلخی بڑھانے کے موڈ میں نہیں ہے اور بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اس کا جواب دینا پسند کریں گے؟
دوسری طرف پی ٹی آئی کی سیاسی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پارٹی کمزور سے کمزور ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کو بطور سیاسی جماعت لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔ انہیں جلسے کرنے کی آزادی ہے نہ انتخابی مہم چلانے کی سہولت۔ پنجاب ہی نہیں‘ خیبر پختونخوا میں بھی یہی صورتحال ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز سخت ریمارکس دیے کہ ان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیاں نہیں کرنے دی جا رہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ''ایسالگ رہا ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن فیل ہوگئے ہیں۔ باقی سیاسی پارٹیاں جلسے کر رہی ہیں مگر پی ٹی آئی کو یہ آزادی نہیں۔ شفاف الیکشن نہیں کروا سکتے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کس کام کے ہیں‘‘۔ عمران خان کا حال بھی اپنی جماعت سے مختلف نہیں ہے۔ سائفر کیس میں ان کو ضمانت نہیں مل رہی؛ البتہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ''اب تک کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔ وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشنز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کوئی ایسا قانون نہیں جس کے تحت کسی مجسٹریٹ کو کسی خاص کمرے میں عدالتی کارروائی کا پابند کیا جائے۔ غیر معمولی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جیل ٹرائل ممکن ہے مگر اس کے لیے قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔ قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یا اِن کیمرہ ہو سکتا ہے۔ ہاں البتہ! آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم عدالت کے جج کے تقرر کو درست قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے عمران خان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اور یہ فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے یا خلاف؟ پی ٹی آئی کے وکلا جیل ٹرائل کالعدم ہونے پر خوش ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ عمران خان کے حق میں نہیں ہے۔ اتنا ضرور ہوا کہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے جو عدالتی کارروائی جاری تھی‘ وہ ختم ہو گئی ہے‘ مگر اس کے علاوہ ان کے حق میں کیا ہے؟
عمران خان کی استدعا تھی کہ جیل ٹرائل ہو سکتا ہے نہ اِن کیمرہ سماعت۔ ہائیکورٹ نے کہا کہ جیل ٹرائل بھی ہو سکتا ہے اور اِن کیمرہ سماعت بھی‘ مگر قانونی تقاضے پورے کرنا ضروری ہے۔ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد حکومت فیصلہ کرے گی کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی یا پھر فوری طور پر قانونی تقاضے پورے کرکے ٹرائل کا دوبارہ آغاز کیا جائے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پروسیجر کی غلطی کو میرٹ کی فتح کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر اگلے چند روز میں استغاثہ ٹرائل جج کے پاس عرضی لے کر جاتی ہے کہ سائفر کیس کا جیل ٹرائل ہونا چاہیے کیونکہ عمران خان کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے اور ٹرائل جج اسے مان لیتے ہیں تو پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا جائے گا اور ساتھ ہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر اسلام آباد کے ذریعے وزارتِ قانون کو مطلع کیا جائے گا۔ وزارتِ قانون کابینہ سے منظوری لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ کو مطلع کر دے گی اور پھر جیل ٹرائل شروع ہو جائے گا۔ یہ ایک سے دو دن کا کام ہے اور پھر دوبارہ فردِ جرم عائد ہو جائے گی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔ ایک سے ڈیڑھ ماہ کے اندر اس کیس کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ سائفر گمشدگی کیس بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے مگر نجانے حکومت کو کیا جلدی تھی کہ اس نے جیل ٹرائل شروع کرتے وقت پروسیجر ہی کو نظر انداز کر دیا۔ حکومت اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکی کہ اس کی جانب سے ضابطوں کی عدم پیروی ٹرائل کی شفافیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
تیسری جانب مسلم لیگ (ن) کی اس وقت سب سے بڑی پریشانی ہے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے سے قبل میاں نواز شریف کی دونوں اپیلوں پر فیصلہ ہو پائے گا یا نہیں۔ اگر ان فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر میاں صاحب کے لیے الیکشن میں حصہ لینے میں مشکل ہو سکتی ہے۔ پارٹی کے معتبر حلقوں کے مطابق ایسی صورت میں الیکشن میں فتح کے بعد شہباز شریف پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ البتہ (ن) لیگ کے زعما یہی چاہتے ہیں کہ نواز شریف ہی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں تاکہ الیکشن جیتنے میں آسانی رہے‘ انہیں خوب ادراک ہے کہ شہباز حکومت کی معاشی میدان میں کارکردگی بہت خراب تھی‘ اور اب اسی وجہ سے (ن) لیگ کو عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں