پی ٹی آئی کے فالورز

مشکلات کے باوجود چلتے رہنا اور غمو ں کو مسکرا کر جھیلنا ہی زندگی ہے کیونکہ جدوجہد کا اضطراب فرار کے سکون سے بہتر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشنی کی تلاش میں مرنے والے تاریکی میں زندہ رہنے والوں سے افضل مانے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فتح یاب وہ ہوتے ہیں جو مایوسی کو جھٹک دیتے ہیں، غصے پر قابو رکھتے ہیں اور دکھوں کو بھول کر آگے بڑھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کا اقتدار میں آنے کا مقصد قوم کے مسائل کم کرنا تھا یا وہ اپنی مشکلات دوچند کرنے آئے تھے۔ اگر وہ دانائی کا مظاہرہ کرتے، راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر منزل کی جانب رواں دواں رہتے تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ وہ جذباتی ہو گئے اور راستے کی ٹھوکروں سے بغلگیر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ آج ان کے لیے جتنی مشکلات ہیں‘ ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ کاش! وہ حکمت، دانائی اور فہم وفراست سے کام لیتے‘ ایسی صورت میں شاید آج ملک کے باسی بھی مضطرب اور بے چین نہ ہوتے۔
عمران خان جب تک وزیراعظم تھے‘ ان کے فالورز کے لیے وہ سیاستدان تھے۔ عوام ان کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں پر سوال بھی اٹھاتے تھے اور ان کی کارکردگی پر تنقید بھی کی جاتی تھی۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم تھے جو مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی غیر مقبول ہونا شروع ہو گئے تھے مگر جیسے ہی وہ وزیراعظم ہاؤس سے نکلے اور جس طرح کا انہوں نے بیانیہ بنایا‘ عوام میں وہ ایک بار پھر مقبول ہونا شروع ہو گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مقبولیت عقیدت میں بدل گئی اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ خان صاحب کا اپنے فالورز سے تعلق مرشِد اور مرید والا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے مرشِد عمران خان ہیں اور عمران خان اپنا مرشد اپنی اہلیہ کو قرار دیتے ہیں۔ بسا اوقات تحریک انصاف کے کارکنوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ جماعت اب کسی سیاسی جماعت سے زیادہ ایک کلٹ (Cult) کا روپ دھار چکی ہے۔
کلٹ کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا اپنا نظریہ ہوتا ہے‘ وہ کسی منطق، دلیل، آئین، قانون، اقدار، اخلاقیات، حقوق اورفرائض کو نہیں مانتے۔ یہ اپنے رہنما اور لیڈر کو غلط صحیح، اچھے برے اور نیک و بد کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے۔ آپ جتنے مرضی ثبوت لے آئیں‘ یہ اپنے رہنما کی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر لیڈرز خود بھی اپنی غلطی مان لیں تو بھی فالورز اسے شک کی نگاہ ہی سے دیکھتے ہیں کہ شاید یہ بیان کسی دباؤ کا نتیجہ ہو۔ عمران خان کے مخالفین کی مخمصہ یہ ہے کہ اس دفعہ ان کا واسطہ ایسے مخالف فریق سے پڑا ہے جس نے کلٹ کا روپ دھار رکھا ہے اور وہ اپنے لیڈر کے خلا ف کچھ بھی سننے اور ماننے کو تیار نہیں۔ ایسے میں خاور مانیکا ہوں یا اداکارہ ہاجرہ خان، ریحام خان ہوں یا میاں نواز شریف، آصف زرداری ہوں یا مولانا فضل الرحمن‘ کوئی بھی بیانیے میں فتح حاصل نہیں کر سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ خاور مانیکا ایک سادہ لوح انسان ہیں‘ انہیں لگتا ہے کہ وہ ٹی وی انٹرویو دیں گے اور پی ٹی آئی چیئرمین کو غلط آدمی ثابت کر دیں گے۔ عوام کے دلوں میں ان کا جو مقام ہے‘ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اسے بدل دیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ خاور مانیکا نے اپنے انٹرویو کے بعد ایک اور وار کیا ہے۔ انہوں نے سول عدالت میں درخواست دائر کی ہے‘ جس میں چیئرمین پی ٹی آئی پر نجی و ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اگر مانیکا صاحب کو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز ان کے الزامات کو تسلیم کر لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ مانیکا صاحب نے چار گواہوں کی فہرست بھی عدالت کو دی ہے مگر چار تو کیا‘ چالیس گواہ بھی آ جائیں تو پی ٹی آئی کے فالورز کو کوئی پروا نہیں‘ وہ کسی طور ان الزامات کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ ان کی نظر میں اب عمران خان ایک سیاستدان کے درجے سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔
صرف خاور مانیکا ہی نہیں‘ اداکارہ ہاجرہ خان بھی بھلے جتنی مرضی کتابیں لکھ لیں اور عوام کو بتائیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے قول و فعل میں کتنا تضاد تھا‘ پی ٹی آئی کلٹ کبھی ان باتوں پر یقین نہیں کرے گا۔ عدت کے دوران نکاح کی خبریں 2018ء کے الیکشن سے گردش کر رہی تھیں مگر کیا کوئی اثر ہوا؟ ریحام خان کی کتاب بھی 2018ء کے انتخابات سے قبل آئی تھی اور کیا کیا الزامات اس کتاب میں نہیں لگائے گئے‘ مگر کیا ہوا؟ پی ٹی آئی کے فالورز نے کوئی ردعمل دیا؟ کپتان کی مبینہ غیر اخلاقی گفتگو منظر عام پر آئی تو اس کو پی ٹی آئی کلٹ نے برا سمجھا؟ عمران خان کی بطور وزیراعظم ووٹ کی خریداری کے حوالے سے ایک مبینہ کال لیک ہوئی تو کیا عوام کی عقیدت میں کوئی فرق پڑا؟ مشہور مقولہ ہے کہ سوئے ہوئے کو جگایا جا سکتا ہے مگر جو سونے کی اداکاری کر رہا ہو‘ اسے کیسے جگایا جائے؟ بالکل اسی طرح‘ سمجھایا اُسے جا سکتا ہے جو سمجھنا چاہتا ہو اور جو سمجھنا ہی نہ چاہتا ہو اسے کون سمجھا سکتا ہے؟ اگر عمران خان کے چاہنے والے اگر بے جا عقیدت کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے اور چیئرمین پی ٹی آئی کی غلطیاں عیاں کرنے کی سعی کرتے تو خان صاحب غلطی پر غلطی نہ کرتے‘ پھر شاید انہیں آج یہ حالات دیکھنا پڑتے نہ ہی ان کے پیروکار بے یقینی کی اس کیفیت سے دوچار ہوتے۔
10 اپریل 2022ء کے بعد سے پی ٹی آئی کے کٹر قسم کے فالورز کا وتیرہ رہا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے‘ انہوں نے ماننا ہی نہیں۔ عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ قائم کیا تھا؛ تاہم یہ انتہائی کمزور کیس تھا اور شہباز حکومت نے یہ ریفرنس واپس لے لیا تھا، بعد ازاں عمران خان اور صدر عارف علوی نے بھی تسلیم کیا کہ ریفرنس بھیجنا ان کی غلطی تھی مگر پی ٹی آئی کے فالورز یہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد اپنے ایم این ایز کو استعفیٰ دینے کا کہا‘ جو بعد ازاں ان کی ایک بڑی سیاسی غلطی ثابت ہوئی‘ اس غلطی کا احساس ہونے پر انہوں نے استعفے واپس لینے کے لیے سپیکر کو درخواستیں دیں اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر کلٹ کب اس غلطی کو تسلیم کرتا ہے‘ وہ آج بھی اس فیصلے کو معتبر مانتا ہے۔
عمران خان نے باجوہ صاحب سے خفیہ ملاقات اور ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ وہ قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر، میر صادق اور غدار نہیں کہتے‘ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ شہباز شریف کے بارے میں استعمال کیے تھے مگر ان کے فالورز کی آج بھی باجوہ صاحب بارے یہی سوچ ہے۔ یہی نہیں‘ سٹرکیں بندکرنا، اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنا، قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں اہم شخصیات کا نام دینا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں ختم کرنا، زمان پارک میں دورانِ آپریشن پتھراؤ اور سب سے بڑھ کر نو مئی کے پُرتشدد واقعات‘ یہ سب عمران خان اور ان کی جماعت کی وہ غلطیاں ہیں جو بینائی سے محروم شخص بھی دیکھ سکتا ہے مگر کلٹ مذکورہ سیاسی غلطیوں کو دیکھنے کی قدرت رکھتا ہے نہ انہیں سمجھنے کی صلاحیت۔ اس لیے خاور مانیکا اور ہاجرہ خان کچھ کر لیں‘ کلٹ فالورز ان باتوں کو مانیں گے نہ اپنے لیڈر کی حمایت ترک کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کا ووٹر اپنے لیڈران سے کسی اخلاقی معیار کی توقع نہیں کرتا‘ وہ اندھی تقلید کرتا ہے اور شاید یہی کرتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں