مائنس ون اور پلس ون

کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ یہ محاورہ ہماری سیاست پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ ایک طرف عمران خان پارٹی چیئرمین کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں اور دوسری طرف میاں نواز شریف کی الیکشن کی ریس میں انٹری ہو گئی ہے۔ چھ سال قبل صورتِ حال بالکل مختلف تھی۔ سسٹم میاں نواز شریف کے درپے تھا اور عمران خان کا حامی مگر آج بادِ مخالف زوروں پر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا ہے۔ احتساب عدالت نے اس کیس میں میاں صاحب کو دس سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ مجھے حیرت اُس وقت ہوئی جب معلوم ہوا کہ نیب نے سزا کے دفاع میں کوئی دلائل ہی نہیں دیے۔ جب مدعی ہی کیس چلانے سے انکاری ہو جائے تو سزا کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ چھ سال قبل نیب میاں نوازشریف کو سزا دلانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھا اور آج اس کے پاس دلائل ہی نہیں ہیں۔ کیا اسے انصاف کہا جا سکتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ نیب نے یہ مقدمات غلط بنائے تھے اور سزا بھی میرٹ پر نہیں ہوئی تھی‘ لہٰذا اب درست فیصلہ سامنے آیا ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ نیب میاں نواز شریف کی اتنی کھل کر حمایت کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس قومی ادارے کو اپنی ساکھ کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں؟ اتنی جلدی کس بات کی تھی؟ اگر نیب احتساب عدالت میں دیے گئے دلائل ہی دہرا دیتا تو کیا قباحت تھی؟ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیے کہ نواز شریف و دیگران کے خلاف یہ ریفرنسز سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث دائر کیے گئے تھے‘ اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی؟ یہی نہیں‘ نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں بھی میاں نواز شریف کی بریت کے خلاف جو اپیل کی تھی‘ وہ واپس لے لی ہے۔ اس کے بعد صورتِ حال مزید مشکوک ہو گئی ہے۔ خیر‘ کس کس بات پر واویلا کریں؟ ہمارے ملک کی یہی رِیت رہی ہے۔ ہمیں جتنی جلدی غبارے میں ہوا بھرنے کی ہوتی ہے‘ اس سے زیادہ تیزی ہم ہوا نکالنے میں دکھاتے ہیں۔ عدم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
اے دل ترے خلوص کے صدقے! ذرا سا ہوش
دشمن بھی بے شمار ہیں یاروں کے شہر میں
دوسری طرف دو سال بیت گئے‘ پی ٹی آئی اور عمران خان کی مشکلات کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک سیاسی غلطی کرتے رہے اور نئی نئی مصیبتوں سے بغلگیر ہوتے چلے گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مائنس ون کی ابتدا ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی اب عمران خان کے بغیر الیکشن میں حصہ لے گی۔ خان صاحب پارٹی کے چیئرمین ہوں گے نہ انتخابی مہم کا حصہ۔ عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے مگر اس سے قبل پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ناگزیر ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں سزا کے بعد الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پانچ سال کے لیے انتخابی سیاست کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی رکھی ہے مگر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس لیے اب ساری جماعت کے لیے سب سے بڑاسوال یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی کمان کون سنبھالے گا؟ نیا چیئرمین کون ہو گا جو پی ٹی آئی کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دے؟ کون ہو گا جو تحریک انصاف کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضا کرے تو اس کی بات سنی بھی جائے؟ سب کی نظریں عمران خا ن پر تھیں کہ وہ اپنا جانشین کسے ''چنتے‘‘ ہیں۔ ویسے اگر جانشین ''چننا‘‘ ہی تھا تو پھر انٹرا پارٹی انتخابات کا فائدہ کیا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین کا انتخاب پارٹی کے ورکرز کرتے مگر ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں اتنی جمہوری اقدار کہاں؟ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف نہیں تو ان کے بھائی شہباز شریف صدارت کا تاج اپنے سر سجا لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں بھی موروثیت ہے اور جے یو آئی کا بھی یہی حال ہے، اے این پی میں بھی تمام کلیدی عہدے خاندان میں بانٹے جاتے ہیں اور (ق) لیگ میں بھی صورتِ حال چنداں مختلف نہیں ہے۔ صرف پی ٹی آئی کا کیا رونا روئیں‘ ہر طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ لگ بھگ دس لوگوں کے ناموں پر غور کیا گیا مگر آخر میں قرعہ فال بیرسٹر گوہر علی خان کے نام نکلا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس نام کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ پی ٹی آئی کا عجب المیہ ہے کہ جو شخصیات تین میں ہوتی ہیں نہ تیرہ میں‘ وہ بڑے بڑے عہدے لے اڑتی ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عثمان بزدار کیسے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے اور محمود خان کو کس بنا پر خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ لگایا گیا تھا‘ میں سمجھتا ہوں کہ بیرسٹر گوہر خان بھی اسی کڑی کا تسلسل ہیں۔ اگرچہ وہ بہت قابل وکیل ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اچھے سیاستدان ثابت ہو سکتے ہیں؟ کیا وہ عام آدمی کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا وہ اتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے؟ کیا وہ پی ٹی آئی کی الیکشن مہم میں جان ڈال سکتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر‘ لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل کرنے کے لیے وہ سیاسی تگ ودو کر سکتے ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ یہ سب کر سکیں گے۔ گمانِ غالب ہے کہ انہیں اس لیے پی ٹی آئی کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی حوالے سے زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے‘ اس لیے چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خان صاحب سے پوچھ کر کریں گے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ انتہائی شریف النفس انسان ہیں مگر ان کی شخصیت ایسی نہیں کہ وہ پارٹی میں مقبول ہو سکیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عثمان بزدار کے پاس بطور وزیراعلیٰ صوبے کو چلانے کے لیے عمران خان سے زیادہ وسائل تھے مگر کیا وہ پارٹی میں شرفِ قبولیت حاصل کر سکے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کا بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی چیئرمین بنانے کا فیصلہ درست ثابت ہوتا ہے یا پھریہ فیصلہ بھی عثمان بزدار کے انتخاب جیسا ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی گرم ہے کہ بشریٰ بیگم کو پارٹی کی سربراہ کیوں نہیں بنایا گیا اور شاہ محمود قریشی کے راستے میں کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟ عمران خان آج بھی سب سے زیادہ اپنی اہلیہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر وہ چیئرپرسن بننے کا کہہ دیتیں تو شاید خان صاحب اس سے انکار نہ کر پاتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ اس کی پانچ وجوہات ہیں۔ اول: ان پر بھی کئی مقدمات ہیں اور ان کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔ دوم: پی ٹی آئی کے ورکرز نے انہیں عمران خان کے جانشین کے روپ میں قبول نہیں کیا، ورکرز کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان آج جن مشکلات کا شکار ہیں اس میں ان کی زوجہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ خان صاحب پر توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس انہی کی وجہ سے بنے ہیں۔ اگر انہیں چیئرپرسن نامزد کیا جاتا تو یہ پی ٹی آئی کے ورکرز کا بہت بڑا امتحان ہوتا۔ سوم: خان صاحب کی اہلیہ پر کرپشن کے بھی بہت سے الزامات ہیں‘ پنجاب میں تقرر و تبادلوں کے حوالے سے مبینہ کرپشن میں ان کا نام لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ناکامی بھی انہی کے سر ہے کیونکہ وہ سابق خاتونِ اول ہی کے نامزد کردہ تھے۔ چہارم: الیکشن سر پر ہیں اور پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین کو شہر شہر جا کر جلسے جلوس کرنا ہوں گے‘ ورکرز کو متحرک کرنا پڑے گا اور پارٹی میں نئی جان پھونکنا ہو گی‘ کیا بشریٰ بیگم یہ سب کر سکتی تھیں؟ پنجم: کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی جارحانہ سیاست میں بھی ان کی اہلیہ کی ہدایات شامل تھیں اور غالباً انہی کی مشورے پر غداری کا بیانیہ بنایا گیا اور اس کا خوب چرچا کیا گیا۔ اگر پی ٹی آئی کے لیے سیاسی ماحول ساز گاز بنانا مقصود ہے تو یقینا وہ پارٹی کی چیئرمینی کے لیے موزوں امیدوار نہیں ہیں۔
صرف بشریٰ بیگم نہیں، شاہ محمود قریشی، حامد خان، عارف علوی، شیر افضل مروت اور بیرسٹر علی ظفر کے ناموں پر بھی غور کیا گیا مگر خان صاحب نے بیرسٹر گوہر کے نام کی منظوری دی۔ بیرسٹرگوہر دھیمے مزاج کے انسان ہیں وہ جذباتی اور تلخ نہیں ہیں‘ اس لیے ممکن ہے کہ وہ افہام و تفہیم کی بات کریں اور تلخیوں کو مزید نہ بڑھائیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس عہدے کے لیے سب سے بہترین چوائس علی محمد خان تھے مگر نجانے کیوں پارٹی میں انہیں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں