(ن) لیگ کیلئے پنجاب میں بڑھتا خطرہ

عمران خان کی مقبولیت کسی شاعر کی مبالغہ آرائی ہے نہ کسی دیوانے کا خواب۔ یہ شہرت اور مقام تو پھولوں سے لدے اس پیڑ کی مانند ہے جو اندھیری رات کی قہر سامان تاریکیوں میں بھی صاف نظر آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مصر ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز اس وقت قدرے پریشانی کا شکار ہے جبکہ جے یو آئی اس سے زیادہ مضطرب نظر آ رہی ہے۔ دونوں جماعتوں بالخصوص ان کی قیادت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی مقبولیت کا کیا توڑ نکالیں؟ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ایف) مسلسل سر جوڑ کر بیٹھی ہیں مگر کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ کیوں؟
میاں نوازشریف وطن واپس آئے تو ان کے سامنے سات بڑے چیلنجز تھے۔ وہ چھ چیلنجز پر لگ بھگ قابو پا چکے ہیں مگر ساتواں چیلنج ان کے لیے ہمالیہ بنا ہوا ہے۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ اس کو کیسے عبور کریں۔ لندن سے روانگی کے وقت میاں نواز شریف کے سامنے پہلا چیلنج یہ تھا کہ انہیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر کے جیل نہ بھیج دیا جائے۔ انہوں نے اسلام ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی، عدالت نے انہیں ضمانت دی اور یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ انہیں وطن واپسی پر پروٹوکول ملنا چاہیے تاکہ سب کو یہ میسج جائے کہ وہ ایک بار پھر سسٹم کے لیے قابلِ قبول ہیں اور یہ کہ چھ سال قبل انہیں غلط طور پر اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا اور اب اس غلطی کو سدھارنے کا وقت آ چکا ہے۔ میاں صاحب کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اور انہیں ایئرپورٹ پر بھرپور پروٹوکول اور سکیورٹی دی گئی۔ میاں صاحب کے لیے تیسرا بڑا چیلنج العزیزیہ ریفرنس میں سزا کی معطلی کے حوالے سے تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں وطن واپسی پر جیل جانا پڑتا۔ پنجاب کی نگران حکومت نے ان کی یہ مشکل بھی آسان کر دی اور اپنے ''خصوصی اختیارات‘‘ استعمال کرتے ہوئے سزا کو میڈیکل گراؤنڈ پر معطل کر دیا‘ جس پر عدلیہ سمیت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یوں میاں نواز شریف کے سارے مسائل دھیرے دھیرے حل ہونے لگے۔
اب ان کے سامنے چوتھا بڑا چیلنج ایون فیلڈ کیس اور العزیزیہ ریفرنس میں بریت سے متعلق تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پہلے ایون فیلڈ کیس کی سماعت کی اور احتساب عدالت نے جس کیس میں سزا سنانے کے لیے نو ماہ اور اٹھائیس دن کا وقت لیا تھا‘ وہ کیس تین سماعتوں ہی میں ختم ہو گیا۔ نیب اپنے الزامات اور احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کا دفاع کرنے سے قاصر رہا۔ اب العزیزیہ ریفرنس کیس بھی سماعت کے لیے مقرر ہو چکا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ بھی ایون فیلڈ ریفرنس سے مختلف نہیں ہو گا۔ دونوں مقدمات میں الزامات کی نوعیت ایک جیسی تھی اور نیب کے بدلے تیور اس کیس کے ممکنہ فیصلے کی غمازی کر رہے ہیں۔ وہی نیب‘ جو چھ سال قبل میاں نواز شریف کو سزا دلانے کے لیے بے تاب نظر آتا تھا‘ اب ان کی بریت کے لیے مکمل طور پر رضامند ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بنائے گئے یہ تمام مقدمات اتنے ہی کھوکھلے تھے تو کیا پھر احتساب کے ادارے کی پکڑ نہیں ہونی چاہیے؟
نواز شریف صاحب کے لیے پانچواں بڑا چیلنج شہباز حکومت کی معیشت کے میدان میں بری کارکردگی کا دفاع ہے۔ منہ زور مہنگائی کے باعث لوگ مسلم لیگ (ن) کے درپے ہو چکے ہیں۔ اس کا ادراک پارٹی کی قیادت کو بھی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) شہباز حکومت کو اپنی حکومت تسلیم کرنے ہی سے انکاری ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کی حکومت تھی‘ مسلم لیگ (ن) کی نہیں۔ اگر کارکردگی کا موازنہ کرنا ہے تو پھر (ن) لیگ کی 2013-18ء بلکہ 2013-17ء تک کی حکومت سے کیا جائے‘ جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ یہی انتخابی نعرہ لے کر میاں صاحب میدان میں اتریں گے اور دیکھتے ہیں کہ عوام اس پر یقین کرتے ہیں یا نہیں؛ البتہ اتنا ضرور ہے کہ نواز شریف صاحب کی واپسی سے ان کی جماعت کی مقبولت میں کچھ فرق آیا ہے۔
چھٹا بڑا چیلنج جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو درپیش تھا وہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے الیکٹ ایبلز کو اپنی جانب مائل کرنا تھا کیونکہ 2018ء کے الیکشن سے قبل بی اے پی اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی وجہ سے بہت سے الیکٹ ایبلز نے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔ وطن واپسی کے بعد سے یہ دقت بھی دور ہوتی نظر آ رہی ہے اور بڑے بڑے سیاستدان (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن قدرے بہتر ہوئی ہے مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ الیکٹ ایبلز کی واپسی سے ووٹر (ن) لیگ کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ الیکشن کے دن ہی ہو گا۔
ساتواں چیلنج عمران خان کی مقبولیت سے متعلق ہے جو درحقیقت سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اب وہ اس کا توڑ نکالنے کے لیے متحرک ہیں مگر تاحال انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ نواز شریف صاحب چاروں صوبوں میں پی ٹی آئی کے خلاف انتخابی اتحاد بنانے کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سندھ میں ایم کیو ایم، بلوچستان میں بی اے پی اور کے پی کے لیے مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر چکے ہیں، مگر ان کو زیادہ پریشانی پنجاب کی ہے جبکہ مولانا صاحب خیبر پختونخوا میں اپنے لیے مشکلات دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب اور نواز شریف صاحب ایک ہفتے میں دوبار ملاقات کر چکے ہیں۔ مولانا صاحب سمجھتے ہیں کہ کے پی میں جے یو آئی ایف، مسلم لیگ (ن)، اے این پی، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین اور شیر پاؤ گروپ مل کر الیکشن لڑیں تو پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا جا سکتاہے۔ البتہ بلوچستان کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں عمران خان کی مقبولیت ویسی نہیں ہے جیسی پنجاب اور کے پی میں ہے۔ اس کے باوجود (ن) لیگ ساری سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔بی اے پی کے بانی صدر جام کمال (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ باقی ماندہ پارٹی بھی مسلم لیگ (ن) میں ضم ہو جائے گی یا کم از کم انتخابی اتحاد تو ضرور ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں پی کے میپ، نیشنل پارٹی، بی این پی (مینگل) اور جے یو آئی (ایف) کو مل کر الیکشن لڑنے کی دعوت دے چکی ہے۔ سندھ کی صورتحال بھی بلوچستان سے مختلف نہیں۔ وہاں پر مقابلہ پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی سے ہے۔ میاں نواز شریف ایم کیو ایم، جی ڈی اے، جے یو آئی (ایف) اور قوم پرستوں کو ساتھ ملا کر پی پی پی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس انتخابی اتحاد کو کراچی کی حد تک خاطر خواہ کامیابی مل جائے مگر اندرونِ سندھ خاصی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
رہا پنجاب تو یہ ویسے تو مسلم لیگ (ن) کا ہوم گراؤنڈ ہے مگر اب عمران خان یہاں بھی مقبول ہیں، (ن) لیگ کو ہمیشہ سے پنجاب کی جماعت ہونے کا طعنہ سننے کو ملتا رہا مگر اس بار شہروں میں پی ٹی آئی کا زور ہے۔ لوگ شہباز حکومت کی کارکردگی کا نزلہ (ن) لیگ پر گرا رہے ہیں۔ وہ مہنگائی کا ذمہ دار سولہ ماہی پی ڈی ایم حکومت کوسمجھتے ہیں۔ نواز شریف صاحب پنجاب کے عوام کو اپنے بیانیے سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی استحکام پاکستان پارٹی اور (ق) لیگ سے انتخابی اتحاد کا امکان بھی ہے۔ آئی پی پی تیس سے چالیس نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے جبکہ (ن) لیگ دس سیٹیں آفر کر رہی ہے۔ کون جانے میاں نواز شریف جوڑ توڑ کی سیاست سے عمران خان کی مقبولیت کم کر سکیں گے یا نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ انہیں اپنے پورے کیریئر میں پہلی بار پنجاب میں بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ یہ خطرہ وقت کے ساتھ بڑھے گا یا کم ہو گا‘ اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں