تین عقل مند مردوں کی آمد

یہ آمد تین عقل مند عورتوں کی کیوں نہیں؟ اس لیے کہ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) پر تسلط مردوں کا ہے۔ خواتین آخر ہیں کہاں؟جو مسافر بزنس کلاس اور اس سے اوپر کے درجے میں سفر کرتے ہیں صرف انہی کو خوبصورت اور نرم خو خواتین کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کی خوش بختی میسر آتی ہے۔ جو لوگ اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں ان کی میزبانی کا کام مردوں کو سونپا گیا ہے۔ پی آئی اے میں صنفی مساوات نظر نہیں آتی۔فیصلہ سازی کی سطح تک خواتین کی رسائی ابھی تک نہیں ہو پائی؛ حالانکہ خواتین یہ بات بہتر جانتی ہیں کہ پی آئی اے کی پرواز کو خوش گوار کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ معیاری کھانا، اچھی سروس، صفائی ستھرائی کا نظام، بہتر ماحول اور دورانِ پرواز تفریح کا انتظام، یہ سب ایسی باتیں نہیں جن کے لیے چاند سے کچھ توڑ کر لانا پڑے، بلکہ اس کے لیے ایسی خواتین اور مردوں کی ایک ٹیم درکار ہے جو جمالیاتی ذوق رکھتی ہو۔ ایک انگریزی معاصر کے مطابق تین حاضر سروس فوجی افسر پی آئی اے میں تعینات کیے گئے ہیں۔ اس سے ہم تو یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئے کہ پی آئی اے میں بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات پانے والے اربابِ اختیار اس قدر نا اہل ہیں کہ اس ادارے کا انتظام چلانے کے لیے فوجی افسروں کو بلانا پڑا۔ خبر میں پی آئی اے کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر حامد عثمان، کرنل عاطف ڈار اور ونگ کمانڈر ذوالفقار پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے۔ پی آئی اے میں ان کی تقرری تین ماہ کے لیے ہوگی؛ تاہم اس ادارے سے یہ افسر تنخواہ نہیں لیں گے۔ وہ پی آئی اے کے انسانی وسائل پر نظر رکھیں گے۔ انہیں وزارتِ دفاع کے لیے ایک ’’رپورٹ‘‘ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ظاہر ہے‘ یہ افسر معاملات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں گے اور جو کرپشن وہاں ہوتی آئی ہے اس کی تفصیلات سامنے لائیں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ افسر انسانی وسائل کے شعبے میں کوئی مہارت رکھتے ہیں؟ان کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک اور سعی لاحاصل ہے یا اس بار وزارتِ دفاع کچھ کرنے میں سنجیدہ ہے؟ دنیا بھر کے کامیاب ادارے اپنے اہلکاروں کی تربیت کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں۔ ہر کام کے لیے موزوں افراد کا چناؤ کرنا انسانی وسائل کے محکمے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کی سربراہی ایسا شخص کرتا ہے جو اس کردار کو نبھانے کے لیے موزوں اہلیت اور تجربہ رکھتا ہو۔اگر خود سربراہ سفارش پر آیا ہو، اس کی ذہنیت اور کردار عامیانہ ہو اور وہ کرپٹ بھی ہو تو پھر اس ادارے کے ساتھ کیا ہوگا؟ گزشتہ مہینے ہم نیویارک سے لاہور پی آئی اے کی اکانومی کلاس میں آئے۔ یہ سفر ہم کبھی نہیں بھولیں گے اور آئندہ ہم کبھی پی آئی اے میں سفر نہیں کریں گے۔ ذرا سے زیادہ پیسے دے کر کسی اچھی ائرلائن میں سفر کر لیں گے۔اس پرواز میں دُھول، مٹی اور گندگی نے ہمارا استقبال کیا۔ سیٹوں کی حالت خستہ تھی، فولڈنگ ٹریز میں گلے سڑے کھانے کی باقیات اٹکی ہوئی تھیں۔ کارپٹ بھی ہر طرف سے گندگی میں اٹا پڑا تھا اور اس کی حالت بھی خراب تھی۔کھڑکیوں کے شٹرز اور نشستوں کے اوپر لائٹس کا نظام کام نہیں کر رہا تھا۔ تیرہ گھنٹوں کے سفر میںہم مسلسل اندھیرے کو ہی گھورتے رہے اور وہ کتاب جو ہم دوران ِ سفر پڑھنے کے لیے ساتھ لے کر گئے تھے وہ ہماری گود میں پڑی رہی۔ہمارے مرد میزبان کا کہنا تھا کہ ’’بجلی آ جائے گی‘‘ لیکن وہ بیچارا اور کہہ بھی کیا سکتا تھا؛ حالانکہ وہ تو جانتا تھا کہ اس ہوائی جہاز نے اوقیانوس کے آر پارکئی سفر بجلی کے اسی بے کار نظام کے ساتھ کئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز کا کھانا مسافروں کے لیے کشش رکھتا تھا‘ لیکن اب ایسا نہیں ۔جو بریانی ہمیں دی گئی وہ نہ صرف یہ کہ مقدار میں کم تھی بلکہ بدذائقہ، باسی اورٹھنڈی بھی تھی۔ چکن بوٹی بھی باسی تھی۔جو اسنیکس پیش کئے گئے وہ بھی بھوک مارنے کے کام آرہے تھے۔ ظاہر ہے‘ جس کو کھانا سپلائی کرنے کا کنٹریکٹ دیا گیا ہے اُسے صرف پیسے ہتھیانے سے غرض ہے۔ مسافر، باسی، بد ذائقہ اور غیر معیاری کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ اکانومی کلاس میںکھانے کے وقت کے سوا آپ کو کوئی میزبان نظر نہیں آئے گا۔ کھانے کی ٹرے بھی یہ مرد میزبان بغیر کوئی لفظ کہے اور بغیر کسی مسکراہٹ کے پیش کرتے ہیں۔ان میں سے ایک ہمیں لاہور ایئر پورٹ پر ہیلپ کائونٹرپر کھڑا دکھائی دیا۔ ہمیں اُس میں خاصی تیزی طراری اور گرمجوشی نظر آئی جو دورانِ پرواز عنقا تھی۔ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ہمیں اپنا نمبر دے گا تاکہ ہم اس سے پی آئی اے کی کارکردگی کے بارے میں کچھ بات کر سکیں۔یہ سن کر وہ مسکرا دیا۔ یہ اس کی پہلی مسکراہٹ تھی جو ہمیں نظر آئی۔خیر اس نے اپنا نام اور نمبر ہمیں لکھ کر دے دیا۔لاہور سے اسلام آباد کی پرواز کے انتظار کے دوران اس نے رضاکارانہ طور پر ہمیں پی آئی اے کی کارکردگی کی خوفناک داستان سنائی۔ اس نے بتایا کہ وہ پی آئی اے میں گزشتہ سات برسوں سے سٹیورڈ ہے لیکن اس کی تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوا۔ پی آئی اے کی آمدن کا صرف تیس فی صد ادارے اور اس کے اہلکاروں کی تنخواہوں پر صرف ہوتا ہے‘ باقی ستر فیصد کہیں ہوا میں تحلیل ہو جاتاہے۔حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک کنٹریکٹر نے پی آئی اے کی جانب سے غیر قانونی طور پر اس کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی تنسیخ پر اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔یہ معاہدہ اس لیے منسوخ ہوا کہ اسلام آباد کے صاحبانِ اختیاریہ کنٹریکٹ اپنے کسی منظورِ نظر کو دینا چاہتے تھے جس نے یقینا انہیں بھی اچھی خاصی رقم ادا کی ہوگی۔انہیں اس بات کی قطعاً پروا نہیں کہ پی آئی اے کو اس کے نتیجے میں قانونی چارہ جوئی کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس اسٹیورڈ کو پی آئی اے کی حالت میں سدھار کی کوئی امید نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ باقی سارے ملک کی طرح پی آئی اے کا بھی خدا ہی حافظ ہے۔ اس کا اپنا ارادہ بھی ادارے میں زیادہ دیر تک ٹکے رہنے کا نہیںکیونکہ اسے آسٹریلیا میں ایم بی اے کے لیے سکالر شپ ملی ہے۔ پی آئی اے کے انسانی وسائل کے شعبے کی تحقیقات کی ذمہ داری جن تین دانش مندوں کو سونپی گئی ہے‘ کیا وہ بے باک فیڈ بیک کے لیے اس ادارے کے اس اسٹیورڈ جیسے ملازمین سے رابطہ کرنے کی زحمت کریں گے؟ چند سال قبل ہم پی آئی اے کے نیو یارک آفس میں دو اہلکاروں سے ملے تھے۔ ان میں سے ایک مصری خاتون تھی۔وہ اپنے ادارے سے کافی نالاں اور کئی مسائل کا شکار تھی۔ پی آئی اے کے جس دوسرے اہلکار سے 2009ء میں ہمار ی ملاقا ت ہوئی وہ سٹیشن منیجر علی الدین احمد تھے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ان تک رسائی ہمیں کتنی مشکل سے حاصل ہوئی۔ انہوں نے ساری باتیں سپاٹ چہرے کے ساتھ سنیں۔ پاکستان سے نیویارک کے جان ایف کینڈی ایئر پورٹ پر ہفتے میں تین بارپروازوں کی آمد اور روانگی ہوتی ہے اور علی الدین صاحب سنجیدہ چہرے کے ساتھ ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے تیزی اور پھُرتی سے ہر پرواز کی آمد اور روانگی کے موقع پر موجود ہوتے۔ اپنی ملازمت پر ان کی توجہ ایسی تھی کہ جیسے یہ ان کا ذاتی کاروبار ہو۔جن تین دانش مندوں کی پی آئی اے میں تقرری کی گئی ہے ان کے لیے علی الدین صاحب ایک مثال ہیں۔ انہیں ایسے تجربہ کار اور دیانتدار شخص سے ضرور ملنا چاہیے۔ میرٹ کو نظر انداز کرنے کے علاوہ پی آئی اے کے بعض افسر اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ مسلح افواج کے افسروں کو ایسے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں