کامیابی کے بدلتے ہوئے پیمانے

دنیا میں ہلچل مچانے والے افراد ضروری نہیں کہ عظیم بھی ہوں۔ سیاست دان بھی عام انسان ہوتے ہیں‘ ان میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ اگر آپ موجودہ سیاست دانوں کی کھیپ پر نظر ڈالیں اور پھر خود سے سوال پوچھیں کہ کیا ان میںسے کوئی اعلیٰ و ارفع مقام کا سزاوار ہے؟کیا کوئی ہے جو غیر معمولی شخصیت قرار دیا جا سکے؟ جی تو چاہتا ہے کہ ان رہنمائوں کو واپس سکول بھیج دیا جائے اور جو چیز بہت دیر پہلے ان کے اساتذہ اکرام ان کے ذہنوںمیں نہیں ڈال پائے تھے (اپنی کوشش کے باوجود)، انہیں سکھائی جائیں۔ عظمت کی دستار ارفع منازل کے حصول، نہ کہ تقاریر کرنے اور روزانہ اخبارات میں بیانات داغنے، کے ساتھ سر پر سجتی ہے۔ امریکہ کے ایک ہائی سکول میں ایک انگلش ٹیچر نے اپنے شاگردوں کو بتایا۔۔۔’’آپ غیر معمولی لوگ نہیں ہیں، آپ میں کوئی خاص صلاحیتیں ودیعت نہیں کی گئی ہیں۔ ہماری ایک دوسرے سے ہونے والی اندھی مقابلے بازی کی وجہ ہمارے اندر کا خوف ہے۔ ہم امریکی اصل کامیابی سے زیادہ خوشامدی رویوں کو پسند کرتے ہیں‘‘۔ ان جملوں میں سچائی کی واضح جھلک ملتی ہے۔ میں آپ کو بتاتی ہوں، میرا دس سالہ پوتا کسی کھیل میں اول آنے پر یا کلاس میں اچھا رویہ دکھانے پر اپنے بہت سے ٹیچرز کے دیے ہوئے گلابی، نیلے یا سبز رنگ کے کارڈز، جن پر ’’Certificates of Achievements‘‘ لکھا ہوتا ہے‘ لاتا ہے۔ ایسا ہی منظر اکثر گھروںمیں پایا جاتا ہے ، بلکہ ہر گھرمیں ایک دیوار ’’ہال آف فیم ‘‘ کی طرح بچوں کے جیتے گئے مختلف تمغوں، ٹرافیوں اور انعامات سے سجی ہوتی ہے۔ ان میں اکثر ٹرافیاں ثابت کرتی ہیں کہ یہاںکے بچے تقریر کرنے ، کراٹے کھیلنے ، مضامین لکھنے، پیانو بجانے یا کسی میگزین کی ادارت (جو بچوں کا کھیل ہی لگتا ہے) کے ماہر ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی بچے میں یہ تمام خواص ’’دھانس‘‘ دیے جاتے ہیں۔ اس ’’حوصلہ افزائی‘‘ پر ایک انگلش ٹیچر کا کہنا ہے۔۔۔’’ ہم خوشی سے معیار پر سمجھوتہ اور حقائق کو نظر انداز کر جاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے اپنی شہرت، تعریف اور کامیابی کا آسان راستہ ہوتی ہے‘‘۔ تاہم کیا بچوں کو اس طرح ٹرافیاں دے کر بہلانا حوصلہ افزائی کے زمرے میں آتا ہے یا اُن کو حقائق کی دنیا سے پرے دھکیل دیتا ہے؟ جن استاد صاحب کا مضمون کے شروع میں حوالہ دیا تھا، اُن کے کہنے کا مطلب ہے کہ طلبہ کو چاہیے کہ اس طرح کی ٹرافیاں یا اسناد پا کر خوش ہونے کی بجائے اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے کچھ کریں۔ جہاں تک والدین کا تعلق ہے تو وہ ایسی ٹرافیاں ملنے پر بچوں کو پیکاسو، چارلس ڈکنز، نیوٹن، چرچل ، رونالڈو، مائیکل ہولڈنگ اور بروس لی سے کم نہیںسمجھتے اور وہ ان کی تعریف سے حریفوں(دیگر رشتے داروں ) کا کلیجہ جلاتے رہتے ہیں۔ ان سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے بچے ہر کلاس میںاول آتے ہیں، ہر مقابلے میں انعام حاصل کرتے ہیں اور ان کو دیکھ دیکھ کر عام بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، تو پھر اعلیٰ جماعتوں یا زندگی کی اصل دوڑ میں جا کر وہ ’’ننھے نیوٹن ‘‘ کہاں کھو جاتے ہیں؟ (ہو سکتا ہے کہ اولیول یا میٹرک میں ہی اٹک جائیں) ایک زمانے میں کامیابی حاصل کرنے، شخصیت کو نکھارنے، خود شناسی اور کامیابی کے گر سکھانے والی کتابیں مارکیٹ میں بہت فروخت ہوتی تھیں۔ ان میں کچھ نہ کچھ دانائی اور ذکاوت ِفہم کا درس مل جاتا تھا، لیکن ان کتابوں کا دور لد چکا ہے۔ آج انٹرنیٹ کامیابی کے حوالے سے فری مشورہ دینے کے لیے موجود ہے۔ ایک کلک کریں اور برق رفتاری سے ماہرِ نفسیات اور سماجی علوم کے ماہرین کے زرّیں مشورے حاضر ِ خدمت۔ اگر آپ چندمنٹ نیٹ سرفنگ کریں تو دماغ معلومات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ پھر کمی کس چیز کی ہے؟ گزشتہ ہفتے ’’ نیویارک ٹائمز ‘‘میں ایک مضمون نے میری توجہ اپنی طرف بٹالی۔ اس کالم میں مضمون نگار نے انسانوں کے ’’غیر معمولی‘‘ کہلانے کے جنون کو موضوع ِ بحث بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں۔۔۔ ’’اس دنیا میں عام زندگی کو بے معنی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر غیر معمولی زندگی کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔‘‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم عام زندگی کو ’’معمولی زندگی‘‘ کیوں سمجھتے ہیں؟ٹائمز میگزین میں ایلینا ٹوجند (Alina Tugend) سوال کرتی ہیںکہ کامیابی کیا ہے؟ انھوںنے حال ہی میںایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع تھا ۔۔۔’’ دولت اور طاقت کے بغیر کامیابی‘‘۔ اس کانفرنس کے شرکا کی باتیں سن کرگماں گزرتا ہے کہ آج کی دنیا میں کامیابی کا بیرو میٹر تبدیل ہونے والا ہے ۔ اگر دنیا کے کامیاب ترین افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دن میں بیس گھنٹے کام کرتے تھے۔ اگر آپ ان میں سے نہیں ہیں اور تو ٹرافیوں سے بھری ہوئی دیوار بے معنی ہے۔ تاہم آج کے دور میں تو ہر کوئی اعصابی تنائو کا شکار، افراتفری کے عالم میں ہاتھ پائوں مارتا ہوا نظر آتاہے۔۔۔ جبکہ اسی دوران اُس کی آنکھیںنیند میں بھی ڈوبی ہوتی ہیں۔ اس عالم میںکون سے بیس گھنٹے کی محنت اور کون سا کام؟ ایلینا کا کہنا ہے کہ وہ جسمانی اور روحانی فلاح کے لیے ایک تحریک شروع کرنا چاہتی ہیںتاکہ لوگ یک سوئی سے کام کرنا سیکھ لیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حقیقی یا تصوراتی، ٹرافیوںکی دیوار گرادی جائے اور وہ لگن سے محنت کریں۔ کامیابی زندگی کاراز اس کے لیے کی گئی محنت میں مضمر ہے۔ یقینا انسانوںکو التباسات کی دنیا سے نکالنا مشکل کام ہے ، لیکن ضروری ہے کہ اُن کو وقت اور اس میں کی گئی محنت کی قدر ہو۔ بے جا تعریف سے بنے ہوئے ذہنی سومنات گرائے بغیر محنت کرنے کا گر حاصل نہیںہوسکتا۔ کالم کے آغاز میں ، میںنے سوال اٹھایا تھاکہ کیا ہمارے اربابِ اقتدار میںکوئی ایسا باصلاحیت شخص ہے جس کے ذاتی اوصاف قابلِ ستائش ہوں؟میرا نہیں خیا ل کہ ہمیں کوئی ایسا نابغۂ روزگار شخص ملے گا۔ تو پھر اس ملک میں کیا کامیابی بڑے عہدوں اور دولت کی فراوانی کے قیدخانے سے کبھی آزاد ہوپائے گی؟کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ یہ لوگ اعلیٰ عہدوںپر ہیں، اس لیے انہیں کامیاب مانا جائے۔ چلیں درست، لیکن کیا یہ لوگ اپنے عہدوں پر درست کام کر رہے ہیں اور کیا انہوں نے پاکستان کو فائدہ پہنچایا ہے یا نقصان؟ اگر نقصان پہنچایا ہے تو اس کامطلب ہے کہ ٹرافیوں بھری دیوار نے کسی غلط بچے کو نیوٹن بناکر تجربات کرنے بھیج دیا ہے۔ ایک نااہل شخص کو زرد شرٹ پہنا کر رونالڈو بنا کر میدان میں بھیجنے پر ٹیم کا جو حشر ہو سکتا تھا، ہمارا ہورہا ہے۔ ایک اور بات، مشرق اور مغرب کے کامیابی کے تصوارت بدل رہے ہیں۔ جس چیز کو ایک مہذب معاشرے میں کامیابی سمجھا جاتا ہے(یعنی قانون کی پابندی) وہ ہمارے ہاں کمزوری اور نااہلی کے مترادف ہے۔ مغرب کے کامیاب انسان دن میں بیس گھنٹے کام کرتے ہیں جبکہ ہمارے ’’کامیاب انسانوں‘‘ کی ذاتی خدمت کے لیے بیسیوں ملازم دست بستہ حاضر ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں