پی آئی اے کی بحالی

گزشتہ سال دھوم مچا دینے والی فلم \"Silver linings playbook\" جسے سال کی بہترین فلم قرار دیا گیا،نے دنیا بھر میں 236 ملین ڈالر سے زیادہ کا بزنس کیا ۔ یہ رقم اس کے بجٹ سے گیارہ گنا زائدہے۔ اس کی کہانی ذہنی طور پر معذور دوافراد کے گرد گھومتی ہے کہ کس طرح اُنھوںنے اپنی معذوری پر قابوپاتے ہوئے اپنے لیے کامیابیوںکے دروازے کھولے۔ پی آئی اے کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیںہے۔ اس کا بھی تمام نظام معذور اور مفلوج ہو چکا ہے اور یہ بھی کسی مسیحا کا انتظار کررہی ہے کہ وہ آکر اس کو حیات ِ نو بخشتے ہوئے اس کی کامیابیوںکا دروازہ کھولے۔ اسے اس حال پر چھوڑنا افسوس ناک، بلکہ شرم ناک حرکت ہو گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک نیا منیجنگ ڈائریکٹراور اس کی پر عزم ٹیم اس جاں بلب ادارے کی رگوں میں نیا خون دوڑا تے ہوئے اس قومی ائیر لائن کو ایک مرتبہ پھر فعال کردے۔ کیا ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے؟ اب پی آئی اے کی تباہی پر اشک بہانے، افسوس کے ساتھ ہاتھ ملنے، اس کی کارکردگی بڑھاتے ہوئے اسے منافع بخش ادارہ بنانے اور اس کی تزئین و آرائش کرنے کے لیے کی جانے والی گول میز کانفرنس ، صلاح مشورے اور گپ شپ کی ضرورت نہیںہے۔ کسی بھی کام کے لیے منصوبہ سازی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کام ہم بہت کر چکے ہیں، اب عملی اقدامات اٹھانے کا وقت ہے۔ فی الحال ہم زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے اداروں کو تباہی کی کھائی میں گرتے دیکھتے رہے ہیں۔پی آئی اے کو کامیابی کے ٹریک پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ملازمین کے دل میں تحریک اور کام کرنے کی امنگ پیدا کی جائے۔ کوئی کمرشل ادارہ اس وقت تک کامیابی کاخواب نہیں دیکھ سکتا جب تک اس میں کام کرنے والوں کو اس ادارے کی اپنائیت کا احساس نہ دلایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ وہی اس کے نفع نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ حال ہی میں، ہم کراچی ائیر پورٹ پر علی الصبح نیویارک جانے والی پی آئی اے کی فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ تین چار افراد، جن کے یونیفارم پر لگے بیج بتارہے تھے کہ وہ سینئر سٹاف میں سے ہیں، بڑے مزے سے قہقہے لگارہے ہیں، یا اپنے سیل فونز پر کسی سے طویل گفتگو کر رہے ہیں(یہ ہمارا قومی نشان بن چکا ہے)۔ اگر پی آئی اے کے پاس بہت کم مسافر ہیں تو پھر اس نے ملازمین کی بڑی تعداد کیوں پال رکھی ہے؟ وہ لوگ ، جو میری طرح سفر کے لیے پی آئی اے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، جانتے ہیں کہ یہ کمپنی، چاہے کارکردگی کچھ نہ ہو، سٹاف کے اعتبار سے ’’سب پر بھاری ہے‘‘۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت نے اپنے تینوں ادوار میں نااہل، غیر تربیت یافتہ اور غیر مہذب جیالوں سے پی آئی اے کو بھر دیا ، یہاں تک کہ اس کا کباڑا ہو گیا، اب وہی نواز حکومت کو مشورہ دے رہی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے کسی غیر ملکی ماہر کی خدمات حاصل کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی پی آئی اے کو اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ نہیںہے۔ رحیم یار خان کے مخدوم، جنھوںنے گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے پارلیمانی سیاست سے توکنارہ کشی کا اعلان کردیا، دانشمندانہ مشورے دینے کی پالیسی سے نہیں۔ غیر ملکی ماہر کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ مخدوم صاحب کی طرف سے ہی آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ذہنی طور پر ہم ابھی نو آبادیاتی دور سے نہیں نکلے۔اس مشورے کے پیچھے وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب سنگا پور اور قطر جیسے ممالک کی ائیر لائنز غیر ملکی چلا رہے ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟مخدوم صاحب پی آئی اے بورڈ کے سابقہ ممبر ہیں۔۔۔ اس ائیر لائن کا بورڈ آف ڈائریکٹرز زرداری صاحب کے مصاحبین پر مشتمل تھا۔ اگران کی تعلیم اور تجربہ دیکھا جائے تو ان جگہ تو کسی کباڑ خانے میں بنتی تھی لیکن ان کو پی آئی اے کے بورڈ روم کی زینت بنا دیا گیا۔ پی پی پی کے ایک اور رہنما ، جوپی آئی اے کے سیاہ وسفیدکے ذمہ دار تھے، چوہدری احمد مختار نے بھی مشورہ دیا ہے کہ غیر ملکی ماہرین کی خدمات درکار ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر ملکی ماہرین پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے؟اصولی طور پر تو چوہدری احمد مختار کو مشورہ دینے سے گریز کرنا چاہیے تھا کیونکہ پی آئی اے کا زیادہ تر نقصان گزشتہ چار سالوں، جب چوہدری صاحب بہت اونچی ہوائوںمیںاُڑ رہے تھے، کے دوران ہی ہوا ہے۔ چوہدری احمد مختار کا سینیٹ کے سامنے بیان ظاہر کرتا ہے کہ پی آئی اے کس طرح زمیں بوس ہوئی۔۔۔’’پی آئی اے کے 150 سے زائد افسران پانچ لاکھ روپے ماہانہ یا اس سے بھی زائد تنخواہ لے رہے ہیں۔ بارہ اعلیٰ افسران کو حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمت پر رکھا گیا۔ اُنھوںنے اعتراف کیا کہ گزشتہ پانچ سالوں(جنوری 2006 ء سے لے کر دسمبر 2010ء)کے دوران پی آئی اے 667 مسافروںکے کاغذات کی جانچ پرٹال کرنا بھول گئی اور وہ لوگ جہاز پر سوار ہو کر بیرونی ممالک چلے گئے۔ اس کے نتیجے میں پی آئی اے کو مجموعی طور پر 71.165 ملین روپے جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ ‘‘اب غیر ملکی ماہرین کے نام پر مزید رقم اجاڑنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ کیا نور خاں ’’غیر ملکی ماہر ‘‘ تھے؟ حال ہی میں وزیر ِ اعظم نواز شریف نے پی آئی اے کے مسائل اور ان کے حل کا جائزہ لینے کے لیے چار رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔ اس کے لیے زیادہ ہاتھ پائوں مارنے کی ضرورت نہیں، اُن کو Skytrax کی طرف سے پوسٹ کیے گئے مسافروںکے جائزے پڑھ لینے چاہئیں۔ اگر مسافروںکی طرف سے کی گئی خوفناک شکایات میںسے نصف کا ہی ازالہ کر دیا جائے تو سمجھ لیں کہ پی آئی اے کی بحالی کی نصف جنگ جیت لی گئی ہے۔ ایک اور بات، قومی ائیر لائن کا زوال راتوں رات نہیںہوا ہے اور نہ ہی یہ کسی حادثے کا نتیجہ ہے۔ اس کے نئے ایم ڈی کو چاہیے کہ بنیادی اصولوںکی پاسدار ی کرتے ہوئے تمام مسائل کا جائزہ لے اور اہم مسائل پر نشان لگاتا جائے۔ بہت جلد تمام حقیقت آشکار ہو جائے گی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے ائیر مارشل نورخان مرحوم ،جنھوںنے ساٹھ کی دہائی میں پی آئی اے کو دنیاکی بہترین ائیر لائن بنادیا تھا،سے ڈانٹ پڑ گئی۔ ہم ایک دوست کے گھر لنچ پر مدعو تھے تو ریٹائرڈ ائیرمارشل نے مجھے دیکھتے ہوئے فرمایا۔۔۔’’آپ صحافی لوگ ہمیشہ تصویر کا تاریک پہلو ہی کیوں دیکھتے ہو؟اپنے ارد گرد دیکھو، بہت سی مثبت چیزیں ہیں جن کو پریس پیش کر سکتا ہے۔‘‘ مجھے اعتراف ہے کہ میرے پاس اُن کی بات کا جواب نہ تھا۔ پارٹی کے اختتام پر جب پی آئی اے کے چیئرمین اپنی پرانی مرسڈیز کی ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھ رہے تھے تو اُن کو شاید احساس ہوا کہ اُنھوںنے مجھ سے ذراسخت لہجے میں بات کی ہے ، تو مجھے بلایا اور کہا کہ وہ مجھے پی آئی اے پر ایک انٹرویو دیںگے۔ یہ و عدہ وفانہ ہوسکا کیونکہ بہت جلد وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مجھے اُن کے الفاظ آج بھی یاد ہیں، پی آئی اے کی بحالی کے لیے سیاسی قوت ِ ارادی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ہمیں ایم ڈی کی سیٹ پر کوئی عمدہ ترین امپورٹڈ سوٹ میں ملبوس کوئی بھاری بھرکم سیاسی شخصیت نہیں ، بلکہ ایک پروفیشنل چاہیے جواے سی والے ٹھنڈے دفتر سے باہر نکل کر ملک بھر میںبغیر پروٹوکول کے گھوم کر معاملات کا جائزہ لے سکے اور اُس کے گرد خوشامدیوں اور سفارشیوں نے گھیرا بھی نہ ڈالا ہو۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنے سٹاف کو سادہ اور مختصرترین الفاظ میں بتائے کہ اُن کے فرائض کیا ہیں اور پی آئی اے ان سے کیا توقع کرتی ہے۔ کسی بھی ائیر لائن کا اصل اثاثہ اس کے مسافر ہوتے ہیں۔ پی آئی اے اپنے مسافروں کا احترام کرنا سیکھے۔ ان کی فیڈ بیک کا جائزہ لے کر اُن کی شکایات کا ازالہ کیا جائے کیونکہ اگر مسافر دیگر ائیر لائنوں پر چلے گئے تو پی آئی اے کو کہیں گوشہ نشینی اختیار کرتے ہوئے باقی عمر یادِ الہٰی میں بسر کرنا ہوگی۔ اس دوران نیلے آسمان کو دیکھتے ہوئے کبھی کبھار ایام رفتہ کو یاد کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں