بحران کا خاتمہ نظر نہیں آتا!

مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس مالی بحران پر قابو پانے کا‘ جو SOEs (state-owned entities) کو نقصان پہنچا رہا ہے، ایک نایاب موقع ملا تھا۔ کیا وزیرِ اعظم نے وعدہ نہیںکیا تھا کہ وہ ایس او ایز میں باصلاحیت افراد کو میرٹ کی بنیاد پر متعین کریںگے؟ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ وزیر اعظم کی طرف سے ایک سو سے زائد اہل چیف ایگزیکٹوز مقرر کیے جانے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے بجائے، ان کی نیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ پارٹی وفاداروںکو ہی نوازنے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے مسئلہ یہ بھی ہے کہ بدعنوانی کا گند صاف کرنے کے لیے اُنہیں کسی حلقے کی طرف سے مدد نہیں مل رہی۔ اُنہیں کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ درکار معلومات تو ان کی نظروںکے سامنے ہیں۔ ہر ادارے کے اندر کے افراد رضاکارانہ طور پر وہاں ہونے والی بدعنوانی کی کہانیاں سنانے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹنگ بھی ان سے ملنے والی ابتدائی معلومات کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے۔ اس دھوئیں کا تعاقب کرتے جائیں تو بدعنوانی کے اصل گڑھ، جو کوئی اہم شخصیت ہو گی، تک پہنچ جائیں گے۔ نواز حکومت، اگر ابھی تک اپنے دعوے پر قائم ہے، نے بدعنوانی کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔ اگر وہ بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے تو نکتے ملاتے جائیں‘ اصل تصویر سامنے ابھر آئے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وائٹ کالر کرائمز میں ملوث بااثر افراد کو گرفتار کرنے کی سیاسی قیمت بھی چکانی پڑے اور اس سے تمام محکمے ہل کر رہ جائیں لیکن ایسا کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو گا؛ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت، جو بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کا اعتماد رکھتی ہے، ایسا کر پائے گی؟ اب سپریم کورٹ کو بھی زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے ایس او ایز کی تقرری کے ناقص اور غیرشفاف طریقِ کار پر نظر رکھنی چاہیے۔ اعلیٰ سرکاری حکام کی لوٹ مار نے ان اداروں کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ ان کے نام اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں اور سپریم کورٹ کو بھی ان کا علم ہے‘ تو پھر جج حضرات حکومت کو ایسے افراد کی تقرری سے روک کیوں نہیں دیتے؟ تاثر یہ ہے کہ نئی بوتلوں میں پرانی شراب انڈیلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر وہی پرانے چہرے نظر آ رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا تھا۔ او جی ڈی سی ایل کے ایک سابق ڈائریکٹر کے بارے میں ان کے محکمے کے بہت سے افراد کا خیال ہے کہ وہ کوئی اچھا انتخاب نہیں۔ ایک ’’گھر کے بھیدی‘‘ کا دعویٰ ہے کہ جن سپلائرز اور پراڈکٹ بیچنے والوں کو کئی سالوں سے اس محکمے کی طرف سے نوازنے کی پالیسی جاری ہے، ان کا تعلق انہی صاحب سے ہے۔ اسی طرح دو افراد اور دو اداروں پر مبنی ایک ایسی تکون بھی موجود ہے جو اس محکمے سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ایک نجی ایئر لائن کے بانی اور سی ای او شاہد خاقان عباسی اب وزیر برائے تیل، گیس اور قدرتی وسائل ہیں۔ اُنھوں نے او جی ڈی سی ایل کے نئے ہیڈ کی تقرری کے لیے تین نام حکومت کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے وہ تینوں نام رد کر دیے ہیں۔ ان میں سے دو کو بدعنوانی اور تیسرے کو کام چوری کے الزامات کی وجہ سے مسترد کیا گیا۔ اس کے بعد وزیرِ اعظم کی طرف سے بھجوائے گئے دو نام شاہد خاقان عباسی نے قبول نہیں کیے۔ اس طرح ریاض خان کو نگران ہیڈ بنا دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ او جی ڈی سی ایل بدعنوانی کا گڑھ بن چکی ہے۔ یہاں کسی کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ ملازمین صبح دس بجے آتے ہیں اور ایک بجے گھر چلے جاتے ہیں۔ ایسے اہم ادارے میں وقت ضائع کرنا قومی وسائل کا شدید ترین نقصان کرنے کے مترادف ہے۔ ایک اور صاحب کو پی آئی اے کا نگران چیئرمین مقرر کیا گیا؛ تاہم اعلیٰ حکام کی ہدایت پر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے بعد عدالت نے حکومت کے نامزد کردہ ایک فرد کو ڈانٹ پلا دی یعنی مسترد کر دیا۔ فی الحال پی آئی اے کسی بھی چیئرمین کے بغیر کام چلا رہی ہے۔ اس پر ہر ماہ تین بلین روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ ایک اور گھر کے بھیدی نے مجھے بتایا ہے کہ پی آئی اے کا ایک مینجنگ ڈائریکٹر‘ جو نیویارک اور پیرس میں دو ہوٹل چلاتا ہے، کے کاروبار میں بہت سے عرب افراد کی سرمایہ کاری ہے۔ وہ دراصل کینیڈا کی شہریت رکھتا ہے۔ اس وقت ایک نام اور بھی ابھر رہا ہے۔ لیکن وہ صاحب بھی دہری شہریت رکھتے ہیں اور اس وقت پی آئی اے کی کسٹمر سروسز کے ڈائریکٹر ہیں۔ پی آئی اے کا چیئرمین، پارلیمان کے خصوصی ایکٹ کے مطابق، اس ایئرلائن کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر فضائی اداروں میں چیئرمین اور سی ای او مختلف افراد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس اہم ادارے میں ایمانداری سے کام کرنے والے ملازمین بددل ہو چکے ہیں۔ ان میں بہت سے استعفیٰ دے کر دوسرے شعبوں میں قسمت آزمائی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ان کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فضائیہ کو بحال کرنے کے لیے مین پاور ناگزیر ہے۔ یہ درست ہے کہ ضرورت سے زیادہ ملازمین کا بوجھ ہی اسے لے ڈوبا تھا لیکن کام کرنے والے اور اہل افراد میں پھیلنے والی بددلی بھی نقصان دہ ہے۔ جب اس میں افسران کی تقرری میں اقربا پروری دیکھنے میں آئے گی تو یہ بددلی مزید بڑھے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں