وزیراعظم کے حالیہ غیر ملکی دورے

ایک اہم سوال۔۔۔۔۔۔ کیا چوبیس ستمبر کو نیویارک میں عالمی رہنمائوں کی ہونے والی ملاقات کے استقبالیے میں صدر اوباما وزیر ِ اعظم نواز شریف کے ساتھ محبت سے بغل گیر ہوںگے اور ان دونوں رہنمائوں کے درمیاں نجی ملاقات بھی ہوگی یا پھر وہ سردمہری سے ہاتھ ملا کر اپنی اپنی نشستوں پر چلے جائیںگے؟ فی الحال نیویارک میں موجود ہمارے سفارت کاروں نے اس ضمن میں ہمیںکوئی اطلاع نہیں دی کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سفارتی افسران کو خود بھی کچھ علم نہ ہواور وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہوں گے کہ جب نواز شریف دنیا کے طاقت ور ترین شخص سے ملاقات کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ نیویارک‘ ایسا شہر جو کبھی نہیں سوتا‘میں جوش کی فضا گہری ہوتی جارہی ہے کیونکہ یہاں سینکڑوں غیر ملکی وفود آنے والے ہیں اور ان کے پرتپاک استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ نیویارک کا جوش و جذبہ اپنی جگہ پر لیکن ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ عالمی رہنمائوں کی تقاریر اتنی اکتادینے والی ہوںگی کہ یواین کا پور ا ہال اُونگھ رہا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ عام حالات میں یہ رہنما بہت کم نیند لیتے ہوں لیکن یہاں ایک دوسرے کی بے کیف تقاریر سن کر وہ خوابوں کی دنیا میں پناہ لینا پسند کریں گے۔ نیویارک ایک اور حوالے سے بھی پرجوش ہے۔یہاں کے ایک انتہائی معتبر اور بااثر اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کوایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صاحب کی جانب سے ایک قانونی نوٹس موصول ہوا ہے۔ اس اخبارنے الطاف حسین کی زندگی اور سیاست پر ایک رپورٹ شائع کی ۔ شاید یہ پہلی مرتبہ تھا کہ نیویارک ٹائمز نے کراچی اور حیدر آباد کو اپنی مضبوط گرفت میں رکھنے والی سیاسی جماعت پر روشنی ڈالی تھی۔ اس رپورٹ کی اشاعت نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی۔ امریکہ میں رہنے والے ایک پاکستانی نے کہا۔۔۔’’ اب جبکہ ایک بااثر اخبار نے ایم کیوایم پر لب کشائی کی جرات کی ہے، تو اب دنیا ان کا نوٹس ضرور لے گی۔اگرچہ ڈیکلن والش نے جو کچھ بھی لکھا ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیںہے اور یہ سب کچھ گاہے بگاہے پاکستانی پریس میں شائع ہوتا رہتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب یہ سب کچھ نیویارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر شائع ہوا ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیںہے۔‘‘ اس رپورٹ ، جس میں تصاویر بھی شائع کی گئی تھیں ، کے جواب میں ایم کیو ایم نے اخبار کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق پارٹی نے نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں سابقہ نمائندے مسٹر ڈیکلن والش، اخبار کے ایڈیٹر، پبلشر، کے خلاف دس ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے کیونکہ اس ’’بے بنیاد رپورٹ‘‘ کی اشاعت نے الطاف حسین کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ بھجوایا گیا قانونی نوٹس متعلقہ افرادکو سات دن کے اندر اندر غیر مشروط طور پر معافی مانگنے کی تاکید کرتا ہے۔ یہ نوٹس ماہر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورت ِ حال ہے کیونکہ ابھی تک کسی پاکستانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹس کو چیلنج نہیں کیا تھا، چہ جائیکہ اس پر ہتکِ عزت کا بھاری دعویٰ کر دیا جائے۔ دوسری طرف نیویارک ٹائمز کے پاس بھی آئینی ماہرین کی ایک ٹیم ہے جس نے اشاعت کی اجازت دینے سے پہلے اس کہانی کا جائزہ لیا ہوگا۔ اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ وہ غیر مشروط معافی، جیسا کہ ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے، نہیں مانگیںگے۔ اگر ایسا نہ ہواتو پھر کیا ہوگا؟بالکل وہی کچھ ہوگا جو مسٹر حسین حقانی کے لندن کے اخبار فنانشیل ٹائمز (جس نے منصور اعجاز کا وہ کالم شائع کیاتھا جس میںیہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ میموحسین حقانی نے اس کے حوالے کیا تھا تاکہ وہ ( منصور اعجاز ) اسے امریکہ صدر کے حوالے کر دے) پر ہرجانے کے دعویٰ کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے کیس کا کوئی انجام نہیںہوتا ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش ہو گی کہ امریکہ دہشت گردی کو شکست دینے کے سلسلے میں ان کو معاونت فراہم کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ سابق صدر اور وزیراعظم نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اوباما کے سامنے داخلی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہ فی الحال ایسی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ تازہ ترین واقعہ واشنگٹن ڈی سی کے نیوی کے اڈے پر فائرنگ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں نیوی کے ہی سابق ملازم ملوث تھے۔ چونتیس سالہ ایرون الیکسز (Aaron Alexis) ، جو سیاہ فام امریکی تھا ، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے انتہائی حساس علاقے میں داخل ہوا اور اندھا دھند فائر کھول دیا۔ جب تک قانون نافذ کرنے والی فورس حرکت میں آتی، وہ بارہ افراد کو ہلاک کر چکا تھا یہاں تک پولیس نے اُسے گولی ماردی۔ اس واقعے پر دارالحکومت میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ جب مجھے اس واقعے کا علم ہوا تو میرے دل سے پہلی دعا یہ نکلی۔۔۔ ’’اے خدا، اس واقعے میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو اور یہ کہ وہ شخص کوئی مسلمان بھی نہ ہو۔‘‘جب قاتل کی شناخت ظاہر کی گئی تو وہ ایک امریکی ہی تھا۔ ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ ’’فاکس نیوز کے متعصب صحافی سخت مایوس ہوئے ہوں گے۔ جب بھی امریکہ میں ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے فاکس نیوز مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے۔ ‘‘ امریکہ آنے سے پہلے نواز شریف نے ترکی کا سہ روزہ سرکاری دورہ کیا ہے ۔ وہاں بھی میں نواز شریف نے میزبان ملک سے دہشت گردی کے حوالے سے مدداور رہنمائی چاہی تاکہ وہ ترکی کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک سے اس مصیبت کو ختم کر سکیں۔ اُنھوںنے دیگر حکام کے علاوہ خاص طور پر ترکی کے وزیرِ داخلہ Muammer Güle سے بات کی۔ وزیراعظم کی باتوںسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ترک پولیس کے تجربے سے سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترک سکیورٹی اداروں نے اپنے ملک میں انتہا پسندی کا انتہائی عمدہ طریقے سے تدارک کیا ہے۔ نواز شریف نے تعریف کی کہ ترکی نے بدعنوانی پر قابوپانے میں کامیابی دکھائی ہے۔ اگر پاکستانی وزیر ِ اعظم برادر ملک کے تجربے سے کوئی سبق سیکھنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اقرباپروری اور سرکاری عہدوں پر افسران مقرر کرنے میں ذاتی پسند و ناپسند کوترک کرنا ہوگا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ NEPRA کے موجودہ چیئرمین خواجہ نعیم ‘ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ ان کی شہرت زیادہ اچھی نہیں لیکن کیا کیا جائے، وہ خواجہ آصف کے بھائی ہیں۔ موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ پسندناپسند کے چکر سے کیسے نکلے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، کوئی تجویز کارگر ثابت نہیںہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں