لاہور کی کچھ سنہری یادیں

ساٹھ کی دہا ئی کے سنہرے زمانے میں پنجاب کا دارالحکومت لاہور پُر لطف سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں آکر وہ بچے، جو ابھی ’’اسیرِ پنجۂ عہدِ شباب ‘‘ نہیںہوئے ہوتے تھے اور گزرتے ماہ وسال کی تمازت نے ان کی جبین عرق آلود نہیںکی ہوتی تھی، ایسا محسوس کرتے جیسے وہ پریوںکے دیس میں آگئے ہیں۔ لاہور کے ’’مسٹر چپس‘‘ کو کون بھول سکتا ہے ؟ انارکلی بازار میں وہ چپس کے پیکٹ بیچا کرتاتھا اور اس کی آواز اتنی بلند ہوتی تھی کہ پورے بازار میں ہر جگہ سنائی دیتی تھی۔ آج پچاس سال بعد بھی اس کی جاندار آواز میری یادداشت سے محو نہیںہوئی۔ جب میری والدہ کپڑوں کی خریداری کر لیتیںتو ہم بانو بازار کے چٹخارے دار چنے چاٹ کھاتے۔ کیا زمانہ تھا! الحمرا میں ڈرامہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا کہ دیکھنے والا خودبھی ڈرامے کی دنیا میں کھو گیا ہے۔ قذافی سٹیڈیم میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھنا(میرا پسندیدہ کھلاڑی بھلاکون تھا؟ اعجاز بٹ جو اس وقت بہت جاذب نظر ’جوان ‘ تھا) مال روڈ پرChalet کی آئس کریم کھانے سے احساس ہوتا جیسے انسان یورپ کے کسی بار میں ہے۔ میرے ساتھ سکول کی دوست بھی ہوتی تھیں (ذنوبیہ خورشید جو اب مسز اخوند ہیں، اور نسرین مظفر جو اب مسز اقبال ہیں) اس کے علاوہ فیروز سنز پر کتابوں کو قطار اندر قطار دیکھنا، ورق گردانی کرنا اور کچھ پیراگراف پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ میں وہاں اپنے بھائیوںکے ساتھ جاتی ۔ اتنی زیادہ کتابیں دیکھ کر ایسا لگتا جیسے طلسم ہوشربا کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ امپیریل بک سنٹر پر سکول کی نصابی کتابیں خریدا کرتی تھی۔ ہال روڈ پر مالٹے کا جوس پینے کا مزہ جنت کے مشروبات جیسا لگتا۔ والدہ کے ساتھ ٹولنٹن مارکیٹ سے کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کا ایک اپنا ہی لطف تھا۔ عروس البلاد لاہور کے جمخانے میں موسم ِ سرما میں سالانہ رقص کی پارٹی ہوتی تھی۔ اگرکوئی اچھا پارٹنر مل جاتا تو رقص کا لطف دوبالا ہو جاتا ۔ اس وقت جمخانے کی عمارت کو لارنس ہال کہا جاتا تھا۔ بہرحال وہاں جانے کے لیے والدین کی اجازت درکار ہوتی تھی اور وہ اسی صورت میں ملتی تھی جب ’’ چھوٹی بہن‘‘ کے ساتھ بڑے بھائی بھی جائیں۔ اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیںکہ بڑے بھائی جان ’’بڑے‘‘ ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم جانتے تھے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا کہ ہال میں پہنچ کر بھائی صاحب کی نظر کہیں اور ہوتی اور وہ میرا اور میری کزن Kaye(جو اب مسز عمران احمد ہیں) کاخیال نہیں رکھ پاتے۔ Kaye بہت جاذب نظر تھی اور ہر کسی کا اسے رقص کی پیش کش کرنے کو جی چاہتا تھا۔ اس زمانے میں شاہد رحمان ہمارے لیے راک ہڈسن تھے۔ تمام لڑکیاں ان کی دیوانی تھیں۔منیر اکرم (جو اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر بنے ) بھی لڑکیوںمیں بہت مقبول تھے۔ داور شیخ، پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر مرحوم، جنہیں ان کی نیلی آنکھوںکی وجہ سے ’’بلُو‘‘ کہا جاتا تھا اور سنی سعید الدین بھی کافی ’’رش ‘‘ لیتے تھے۔ جہاں تک لڑکیوںکا تعلق ہے‘ کوئین میری کالج کی خوبصورت اور باصلاحیت طالبہ نوید رحمان بہت پر کشش تھی۔ ہم کانونٹ میں پڑھتے تھے اور ہماری ہیڈ گرل بھلاکون تھی؟ اُسے ہم چاندنی کہتے تھے… جی ہاں‘ سیدہ عابدہ حسین جو قیامت کی حسین تھیں۔ یہاںسے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ سوئٹزر لینڈ چلی گئیں لیکن جب بھی وہ چھٹیوں میں واپس آتیں تو ہم انہیں بلاتے کہ وہ ہمیں وہاںکی زندگی کے بارے میں بتائے۔وہ درحقیقت خوبصورتی اور ذہانت کا بہت ہی حسین امتزاج تھیں۔ دولت کی فراوانی ہونے کے باعث ان کے ریشمی ملبوسات بھی قابل ِ دید ہوتے تھے۔ ہم سب ان کی نقل کرنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں ریگل، پلازہ اور اوڈین سینما گھروںمیں فلم دیکھنا مرغوب مشغلہ تھا۔ وقفے کے دوران ہم ہال میں اپنی ہم جماعتوں کو تلاش کرتے اور ان میں سے اکثر وہیں پائی جاتی تھیں۔ کیا یہ سینما گھر آج بھی ویسے ہی ہیں؟ ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو‘‘۔ جوانی میں ہم رومانوی اور ایڈونچر فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ محبت کے مناظر ہمارے جوان جذبات میں ہلچل مچا دیتے۔ مجھے یاد ہے کہ Peyton Place نامی ایک فلم میں امریکہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیش آنے والا ایک واقعہ دکھایا گیا۔ اس میں جنسی سکینڈل، خودکشی اور اخلاقی کمزوری کی عکاسی کی گئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہمارے ذہن میں امریکی معاشرے کے بارے میں جو تاثر ابھرا وہ ویسا ہی تھا جو اس فلم میں دکھایا گیا تھا۔ پھر Lolita تو ایک بم دھماکے کی طرح تھی۔ معلوم نہیں‘ اس وقت کے سنسر بورڈ نے وہ فلم کیسے پاس کردی؟ بہرحال نوجوان نسل امریکی فلموں کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہمارے لیے امریکہ ایک ایسا ملک تھا جو سیکس فری ہے۔ مطالعہ کے لیے Bronte سسٹرز اورجین آسٹن کے ناول بہت اچھے لگتے تھے۔ اس کے علاوہ Georgette Heyer, Barbara Cartland اورRebecca جیسے ناول بھی دل کی دھڑکن تیز کردیتے تھے۔ پرسکون راتوںمیں نورجہاں، فریدہ خانم یا اقبال بانو کوباغ ِ جناح کے تھیٹر میں فیض احمد فیض کی غزلیں گاتے سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک باتونی خاتون کو ایک اعلیٰ عہدیدار نے خاموش ہونے کے لیے کہا تو اس خاتون نے جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی بیوی تھی، اس کو تھپڑ رسید کر دیا۔ باغ ِ جناح میں پیش آنے والا یہ واقعہ پورے لاہور میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ نامعلوم اس کا انجام کیا ہوا‘ لیکن کئی دن تک لاہور کی فضائوں میں اس تھپڑ کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ لاہور میں اس وقت بھی سکینڈل کی خبروں میں بڑی رغبت پائی جاتی تھی۔ اس وقت لاہور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ یہاں کئی ملکوںکے شہزادے، شہزادیاں، ملکائیں اور خواتینِ اوّل آتیں۔ جب ایران کی ملکہ فرح دیبا لاہور آئیں تو تمام لاہوری لڑکیوںنے ان جیسا ہیئرسٹائل اپنانے کی کوشش کی۔ امریکہ کی فرسٹ لیڈی جیکی کینیڈی اور ان کی بہنLee Radziwillبھی لاہور آئیں تو صدر ایوب کی خاص توجہ ان پر رہی۔ ان کا شالا مار کا دورہ لاہور کے بڑے واقعات میںسے تھا۔ یہ تھا وہ شہر لاہور جس کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا: شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں