گزشتہ New Year\'s Eve ڈنر کے موقعہ پر خریدے گئے چاکلیٹوں میں سے بچا ہوا ایک ٹکڑا (کچھ یادیں) میرے پاس موجود ہے۔ دراصل یہ ٹکڑا وہ ہے جو ایلکس نے میرے ساتھ اُس وقت شیئر کیا تھا جب ہم 2011ء کا آخری کھانا کھا رہے تھے۔ اس کاتعلق جذباتی ذہانت (EQ) سے تھا۔ میں نے کسی کالم میں اس کا ذکر اس طرح کیا تھا: ’’ذہین افراد جن کی تعداد معاشرے میں بیس فیصد کے قریب ہوتی ہے، وہ کسی بھی میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ایلکس نے کہا: ’’ایسے افراد میں توانائی ہوتی ہے، وہ اپنے لیے کسی بھی راستے کا انتخاب کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ وہ غیر معمولی طور پر سخت محنت کرتے ہیں اور ایسے افراد میں EQ کی سطح بلند ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت تمام افراد میں کسی نہ کسی سطح پر ہوتی ہے لیکن تمام لوگ اس سے استفادہ نہیں کر پاتے‘‘۔ ایلکس کی بیوی اس بات کی سادہ سی تعریف کرتی ہیں: ’’EQ کا اظہار اس رویے سے ہوتا ہے کہ آپ روز مرہ زندگی میں پیدا ہونے والے جذباتی تنائو کو کس طرح برداشت کرتے ہیں۔‘‘ میںنے یہ تعریف سن کر کہا کہ اب مجھے اس کی سمجھ آگئی ہے۔ تاہم اس کے شوہر نے اپنی بیوی کی یہ سادہ سی تعریف پسند نہ کی اور کہا: ’’EQ اپنے اور دوسروںکے جذبات کو بھانپنے اور اُنہیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔‘‘ایلکس کی بات وزن رکھتی ہے کیونکہ وہ امریکہ کے کامیاب ترین افراد میں سے ایک ہے۔ اس کا شمار ذہانت کے اعتبار سے ٹاپ20 میں کیا جا سکتا ہے ۔ میں نے سوچا‘ کیا یہ شخص قدرے مغرور ہے؟ ایلکس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی ہو، فوراً کہا: ’’وہ لوگ جو منفی EQ رکھتے ہیں‘ عاجزی دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ذات سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔ اس خامی کی وجہ سے دوسروں پر نہ تو اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے ہمدردی کا احساس رکھتے ہیں۔ گویا مثبت EQ یہ ہے کہ مغرور ہوئے بغیر غیر جذباتی انداز میں معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ میں نہیں جانتی کہ آیا ماہرینِ نفسیات ایسا فارمولہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس کی مدد سے کسی کی EQ کی پیمائش کی جا سکے؟ ایک بات طے ہے کہ ہم سب ، چاہے ہمارا تعلق زندگی کے کسی گروہ سے ہو، یا ہماری آمدنی جتنی بھی ہو، ہمیں زندگی کے مصائب اور پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے جرأت مندی، لچک دار رویے اور پیش قدمی کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے نام نہاد ماہرین کی ناکامی اور کامیابی کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں آپ کی رہنمائی نہیںکر سکتیں۔ دراصل آپ نے خود ہی اپنا جائزہ لینا ہوتا ہے، اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر کر خود شناسی کی منزل طے کرنا ہوتی ہے اور اُس مقام پر آپ کی ’’اپنے آپ ‘‘ سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہاں آپ کو اپنی شخصیت کا وہ پہلو دیکھنے کو ملتا ہے جو کتابی فارمولوں اور شخصیت شناسی کے روایتی اصولوں کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔ تاہم اپنے آپ سے ملاقات راتوں رات نہیں ہوجاتی، اس کے لیے برس ہا برس کی محنت اور کھوج لگانے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ آپ اس کے لیے وقت دیتے ہیں۔ یہ تجربہ دراصل ایک بلیک ہول میں کود نے کا نام ہے۔ اس بلیک ہول کی تخریب سے بچنے کی کوشش آپ کی شخصیت پر چڑھے ہوئے مختلف خولوں کو پاش پاش کرکے آپ کو ایک ایسے انسان کے روبرو لا کھڑا کرتی ہے جس سے آپ فی الحال اجنبی تھے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار ارب پتی میٹ رومنی کا کہنا ہے: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُن افراد کی چھٹی کرادوں جو مجھے سروس فراہم کرتے ہیں۔ وہ آزاد مارکیٹ اکانومی پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میں جذباتی ہوئے بغیر دیکھتا ہوں کہ کون سے افراد مجھے سروس مہیا کررہے ہیں۔ اگر اُن میںکوئی کوتاہی دکھائی دے تو میں ان کو نکال دینا چاہتا ہوں تاکہ ان کی جگہ بہتر افراد کو موقع دیا جاسکے۔‘‘معاشیات کے میدان میں نوبل انعام یافتہ اور نیویارک ٹائمز کے کالم نگار پال کرگمین (Paul Krugman) اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں: ’’یہ اس متحرک معیشت کا شاخسانہ ہے کہ ہم اس میں جذباتیت کی کوئی جگہ نہیں پاتے‘‘۔ ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت سے کسی بھی وقت برخاست کیے جانے کے خوف نے سرمایہ دارانہ نظام میں نوجوانوںکو بہت متاثر کیا ہے۔ اس نظام میں جاری مسابقت کی وجہ سے بچے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں؛ چنانچہ وہ پریشان ، بدتمیز اور جھگڑالو ہو جاتے ہیں۔ ان کے رویے میں جارحانہ پن اور توڑ پھوڑ کا عنصر شامل ہوجاتا ہے۔ آج کام کرنے والے زیادہ تر نوجوان وہی بچے ہیں جو کل ان صدمات سے گزر چکے ہیں۔ کول مین اپنی کتاب میں ان افراد کا جائزہ لیتا ہے جو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔ مختلف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ یہاں ملازمت حاصل کرنے والے افراد نے تحریری ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ڈیسک پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے یہ اوسط درجے کے افراد ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر عوام کے ان جذباتی مسائل کو نہیں سمجھ سکتے جن کا پس منظر ان کے ماحول سے مختلف ہوتا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے مختلف ادوار میں کئی ارب ڈالر خرچ کیے تاکہ وہ دنیا بھر میں لوگوں کے دل جیت سکے ، لیکن اس کاوش کا الٹا نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ آج دنیا کے زیادہ تر افراد امریکہ کے بارے میں اچھے جذبات نہیں رکھتے۔ اس کی سب سے واضح مثال پاکستان اور افغانستان ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان ممالک کے حکومتیں، ان کے بدعنوان سیاست دان اور سرکاری افسران اور ان کے دفاعی ادارے امریکیوں کی خوشامد کرتے ہوں کیونکہ واشنگٹن سے ملنے والی رقم ان کی جیب میں جاتی ہے حالانکہ وہ عام شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بھیجی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے عام شہری امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور وہ اسے ’’دشمن نمبر ایک ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ایسے ممالک کے جذباتی رویے اور ان کا کلچر سمجھنے کی ضرورت ہے ، ورنہ غیر جذباتی انداز میں رقم خرچ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا اور نہ ہی دکھاوے کی شلوار قمیض پہننے سے کسی کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ اس وقت امریکی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں ۔ چنانچہ اوباما اور ہیلری کلنٹن نے ایک توہین آمیز فلم کی مذمت کی اور پھر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ستر ہزار ڈالر خرچ کرکے اس پیغام کا اردو ترجمہ کرکے پاکستانی چینلوںسے نشرکیا۔ اسے سوشل میڈیا پر بھی ڈالا گیا۔ تاہم جب کسی مسئلے پر ہزاروں افراد گلیوںمیں احتجاج کررہے ہوں‘ اس طرح کے اقدامات ’’مونگ پھلی‘‘ کے مترادف ہوتے ہیں۔ شاید اس وقت امریکہ کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ وہ اس بات کا ادراک کرے کہ اُس نے کس طرح دوست بنانے ہیں اور اپنے دشمنوںکی تعداد کم کرنی ہے۔